اسرائیل ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں تو یہ کہہ سکتا ھے کہ ہلاکت خیز ہتھیار مشرق وسطی میں لانے والا میں تو نھیں، لیکن عمومی تباہی کے دیگر ملتے جلتے ہتھیاروں کےبارے میں وہ ایسا کبھی نہیں کہہ سکتا۔ میری مراد ھے بلڈوزرز سے۔ حالیہ واقعات کی تصویر کشی کچھ اس طرح کی جارہی ھے کہ گویا فلسطینیوں نے کوئی "نیا جدید ترین ہتھیار” تیار کر لیا ہے۔ یہی الفاظ ھیں اسرائیلی وزیر داخلہ کے۔ دیکھا آپ نے! ہم یک رخی تصویر کشی میں کتنی مہارت رکھتےہیں؟
فلسطینیوں نے بلڈوزر کو بطور اسلحہ استعمال کرنے میں پہل کاری نہیں کی انہوں نے تو یہ سب ہم (اسرائیلیوں) ہی سے سیکھا ہے۔ بلڈوزرز کا استعمال بطورمہلک اور تباہ کن ہتھیار یہ تو ھماری اختراع ھے۔ ہماری رائج کردہ یہ بدعت اتنی ہی پرانی ھے جتنی کہ مملکت اسرائیل یا اس خطہ پر ہمارے غاصبانہ قبضہ کی تاریخ۔
آئیے ایک بار پھر اپنی یادداشت اور ضمیر کو ٹٹولیں اور ان 416 بستیوں کو یاد کریں جنہیں ہم نے 1948ء تک صفحہء ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا ڈالا تھا۔ تب ابھی ڈی 9 کا سا دیو ھیکل بلڈوزرعالم وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔
بلڈوزر اسرائیلیوں کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جو حد درجہ خوفناک اور ضخیم ھے۔ اس جیسا ہتھیار پورے خطے میں کسی اور کے پاس نہیں۔
فلسطینی بلڈوزروں میں اور اسرائیلی بلڈوزروں میں صرف رنگ اور حجم ہی کا فرق ہے ۔عموما ہمارے بلڈوزرز، فلسطینی بلڈوزرز سے بڑے کہیں بڑے ہیں بلکہ حجم کے بارے میں تو یہی کہوں گا کہ دونوں کا باہم کوئی موازنہ ہی نہیں۔ کہاں پدا سا ییلے رنگ کا بلڈوزر جسے فلسطینی حملہ آور چلا رہا تھا اور کہاں ڈی 9 دیو ھیکل بلڈوزر جسے اسرائیلی سپاہی فلسطینیوں کے گھر منہدم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
اسرائیلی تسلط کے دن سے آج تک، کیٹرپلر کمپنی اس "اہم اسلحے” کو اسرائیل تک پہنچانے کا بندوبست کرتی آئی ہے۔ اسرائیل کے لیےاس اسلحہ کی اہمیت کسی طرح بھی ایف سولہ طیاروں، بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں سے ہر گز کم نہیں۔
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ دنیا بھر کے امن پسندوں نے کیٹرپلر کمپنی کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رکھی ہے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ اس کمپنی کی بنائی ہوئی بھاری میشنوں نے انسانوں کی تباہی کا جتنا سامان کیا ہے اس کا حجم اوراس کی جہت ناقابل بیان ہے۔ زیادہ دورنہیں ہمیں اس تباہی کا اندازہ کرنے کے لیے رفح سے خان یونس کو جانے والی سڑک پر چند لمحے کا سفر درکار ہے۔ آپ خود ہی جان لیں گے کہ اس سے پھوٹنے والی تباہی و ھلاکت کے کس قدر نشانات ہنوز باقی ہیں ۔
پوری کی پوری کالونیاں کس طرح اپنے ساز و سامان سمیت کچل کر رکھ دی گئیں۔ سازو سامان، زندگی کے لوازمات، حتی کے یادیں تک مٹی کا ملبہ بلڈوزروں کی چینوں کے دندانوں میں پھنسے پڑے ہیں۔
کیا کبھی دیکھا، بلڈوزر پھرنے کے بعد کا منظر کیسا ہوتا ہے؟ بلڈوزر کی زد میں آنے والی گاڑیاں ماچس کی پچکی ہوئی ڈبیہ معلوم ہوتی ہیں اور گھر، کنکریوں کا ڈھیر ہوں جیسے۔ سڑک پر یہ ہیوی بلڈوزر چلنے کی وجہ سے اس کا جو حشر ہوجاتا ہے وہ اس سے کہیں بد تر ہے جو آپ نے اور ہم نے اسی ہفتہ داود روڈ کا بیسیوں مرتبہ دیکھا ھے۔
سنہ 2004ء ہی کو لیں، اس ایک سال میں 10704 فلسطینی بے گھر و بے درکردیے گئے۔ اس مہم میں 1404گھر منہدم کیے گئے،جن میں سے زیادہ تر غزہ میں واقع "فوجی آپریشنز کے لیے میدانی ٹارگٹ” تھے۔ جنین کے مہاجر کیمپ میں اسرائیلی فوج نے 560 تباہ کیے۔ آپ کے مایہ ناز بلڈوزر ڈرائیور”کردی” نے اپنی کہانی سنائی ہے کہ اس نے وہسکی کے جام چڑھا کر کیسے جنین کو کھیل کے میدان کی طرح ہموار کردیا۔ بدنام زمانہ "قوس و قزاح” آپریشن ہی کو لیجئے جس میں بلڈوزر استعمال کیے گئے اورایک ہی دن میں اسرائیل نے 120گھر تباہ کر دیے۔ رفح اور خان یونس کا باسی ہی بہتر اندازہ کرسکتا ہے کہ ہمارے شاندار بلڈوزروں نے کیا کیا کارنامے انجام دیے ہیں۔
یہ مت کہیے کہ ہمارے بلڈوزر تو صرف مکانات کو تباہ کرتے ہیں لوگوں کو تو نہیں کچلتے۔ بتائیے کہ امن کی خاطر مظاہرہ کرنے والی "ریچل کوری” کو کس نے قتل کیا تھا جس کو کچلنے کے بعد ڈرائیور یہ کہہ کر صاف چھوٹ گیا تھا کہ میں اسے دیکھ نھیں سکا ؟ نابلس کے شوبی خاندان کو جی ہاں پورے خاندان بوڑھی دادی، دو پھوپھیاں ایک ماں اور اس کے دو بچے ان سب کو بلڈوزر کی چین کے نیچے کس نے کچل کر مارڈالا تھا؟ جنین مہاجر کیمپ کے معذور جمال فاید کو کس نے قتل کیا تھا جس کے معذور جسم کا ایک عضو بھی تاحال نہیں مل سکا سوائے اس کرسی کے ٹکڑوں کے جس پر وہ سوار تھا۔
کیا یہ بلڈوزروں کی دہشت گردی نہیں ہے؟ میں تو کہوں گا کہ فلسطینیوں نے تو بلڈوزرز کی افادیت کو بڑی دیر سے دریافت کیا ھے۔ جو ہمارے لیے بہترین ہے، ظٓاہر ہے ان کے لیے بھی نامناسب نہیں ہوسکتا۔ہمارے امن کے چمپیئن اب فلسطینوں کے اس نئے رجحان کا کیا توڑ کریں گے آخر! یہی نا کہ ان کے گھر ڈھادو اور وہ بھی بلڈوزروں سے۔ نجانے سے سلسلہ کب تک جاری رہے گا!!
• جدعون لیفی، اسرائیلی صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ اپنے بے لاگ تبصروں اور کالموں کی وجہ سے متعدد بار اسرائیلی تنقید سے لیکر جیل تک جا چکے ہیں مگر یہ تمام مصائب انہیں حق بات کہنے سے باز نہیں رکھ سکے۔