چهارشنبه 30/آوریل/2025

برطانوی وزیراعظم اسرائیلی مظالم پر خاموش کیوں ؟

جمعرات 24-جولائی-2008

جس وقت برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن بیت لحم میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے بات چیت کر رہے تھے اسی دورانیے میں اسرائیلی قابض فوج نے نابلس شہر میں کاروائی کرتے ہوئے معصوم لوگوں کو گرفتار کیا، مکانات کو مسمار کیا اوردکانوں کو نقصان پہنچایا- اسرائیلی افواج نے شمالی شہر پر حملہ کردیا، یہ تین ہفتوں میں چوتھا حملہ تھا جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی اہل کارجنہیں سی  آئی اے نے تربیت دی ہے وہ قریب ہی واقع اپنے صدر دفتر سے سارے مناظر دیکھ رہے تھے-

قابض فوجیوں نے درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا ، ان میں اسلامی سیاسی راہنما کی اہلیہ اور قانون ساز کونسل کی رکن منی منصور بھی شامل ہیں- اس راہنما کو کئی برس قبل یہودیوں کے موت کے دستے نے اس حالت میں موت کے گھاٹ اتار دیاتھا کہ جب وہ اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے – جن افراد کو نابلس سے گرفتار کیاگیا ہے ان کا کوئی جرم نہیں ہے –
 
تاہم انہیں طویل عرصے تک نظر بند ی کیمپوں میں رکھا جائے گا- ان سب کا مشترکہ جرم صرف یہ محسوس ہوتاہے کہ وہ اسرائیلی قابض حکومت اور اس کی فوج کے ناجائز تسلط کو تسلیم نہیں کرتے- دو ہفتے قبل یہودی افواج نے جرمن’’ گستاپو‘‘طرز پر نابلس کے وسطی تجارتی علاقے کو شدید نقصان پہنچایا- انہوں نے تجارتی بلڈنگز،میڈیکل سینٹر اور کئی دیگر دفاتر کو نقصان پہنچایا، ذاتی املاک کوکتنا نققصان پہنچا اسکااندازہ لگانا مشکل ہے-

لوگوں کو گرفتار کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات ایک ایک وقت میں رونما ہوئے کہ جب یورپی اور شمالی امریکہ کی حکومتوں نے اس پر مسلسل خاموشی اختیار رکھی، ان کی خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ زخمی ہونے والے اور نشانہ بننے والے فلسطینی ، عرب اور مسلمان ہیں- یہ وہی حکومتیں ہیں کہ جو بے حیائی سے یہ اعلان کرتی رہی ہیں کہ غزہ کی پٹی کے نزدیک گرفتار کئے جانے والے یہودی فوجی گیلاد شالیت کو فی الفور رہا ہونا چاہیے، دس ہزار سے زائد فلسطینی جنہیں اسرائیلی جیلوں میں ٹھونس دیاگیاہے –

ان کی رہائی کے بارے میں ان ممالک نے خاموشی اختیار کررکھی ہے- شمالی امریکہ یا یورپی ممالک کا کوئی بھی عہدیدار جب مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر قدم رکھتاہے ، وہ اسی قسم کے دہرے معیار کا اظہار کرتاہے – ان کی منافقت نے اس مقدس شہر کو غیر مقدس کردیا ہے-

شمالی امریکہ اور مغربی یورپ سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ’’ اسرائیل کی جمہوریت ‘‘ کی شان بیان کرتے ہیں اور اس طریقے سے اپنے اپنے ممالک کی یہودی لابی کے لیے مسرت کا پیغام لے کر جاتے ہیں کہ جو ان ممالک پر کنٹرول کررہی ہے – گورڈن کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے- گورڈن براؤن نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف اپنی زبان بند رکھی تاکہ ان کے صہیونی میزبان ناراض نہ ہوجائیں بلکہ انہوں نے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا جیساکہ مشرق وسطی کا دورہ کرنے والے راہنما ، سیاستدان اور سفارت کار کرتے ہیں-
 
برطانیہ وہ ملک ہے جس نے اسرائیلی ریاست کے جنم میں کلیدی کردار ادا کیا – گورڈن براؤن نے اس دورے کے دوران کہاکہ ’’برطانیہ اسرائیل کے باقی رہنے کے حق کی حمایت کرتاہے ‘‘ اس کا مطلب یہ تھاکہ اسرائیل نئی بستیا ں اور نئی عمارات تعمیر کرتا رہے اور مقبوضہ فلسطینی اراضی اپنے کنٹرول میں لاتا رہے – برطانوی حکومت کو اس پر اعتراض نہ ہوگا- بیرونی لیڈر ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے ایسے خیالات کا اظہار نہ کیا تو اسرائیل ان سے ناراض ہوجائے گااور اس ملک کو اسرائیل کا مخالف سمجھا جائے گا-

میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر گورڈن براؤن جیسے افراد اسرائیل کے باقی رہنے کے حق میں کیوں ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں کوئی بات کیوں نہیں کرتے؟ کیا ان کا خیال ہے کہ فلسطینی غیر اہم ہیں، کیا ان کا خیال ہے کہ اسرائیلی ’’منتخب قوم ‘‘ ہیں اور اہم ہیں جبکہ فلسطینی ’’غیر منتخب ‘‘قوم ہیں اور غیر اہم ہیں-
اسرائیل کے پاس تین سو نیوکلیئر وارہیڈز موجود ہیں- امریکی حکومت اور کانگریس اس کی زبردست مداح ہے اور اسرائیل کو باقی رہنے کا حق دینے کے حق میں ہیں اور اس بات سے بالکل نا آشنا ہیں کہ اس آبادی کا نصف حصہ اسرائیلی رکاوٹوں سے گزرنے کے انتظار میں اور بقیہ نصف روزی روٹی کی دوڑ دھوپ میں اپنا وقت صرف کرتاہے-

اقتصادی خوشحالی ایسی جگہ نہیں آسکتی کہ جہاں چیک پوسٹیں ہوں، رکاوٹیں ہوں، چوکیاں ہو جس کی وجہ سے مغربی کنارہ کٹے پھٹے علاقے میں تبدیل ہوگیا ہے- قریبی شہروں میں بھی کٹا ہوا ہے اور بقیہ دنیا سے بھی بالکل الگ تھلگ ہوچکاہے- گورڈن براؤن کو چاہیے تھاکہ وہ اپنے سے پہلے کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سے رابطہ کرتے اور ان سے دریافت کرتے کہ  یا اسرائیلی فوجی تسلط کی موجودگی میں مغربی کنارے میں خوشحالی  سکتی ہے- غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لوگ ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں کہ وہ خود بخود یہ علاقہ چھوڑ دیں-

ٹونی بلیئر نے یہ امید لگائی تھی کہ فلسطینی معیشت بحال ہوجائے گی تاکہ ’’واپسی کا حق ‘‘  اور ’’بیت المقدس ‘‘جیسے اہم مسائل پر ان کے موقف میں نرمی لائی جاسکے- انہوں نے بھی یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اسرائیلی قابض حکومت کی موجودگی میں مغربی کنارے میں اقتصادی بحالی ممکن نہیں ہے- مغربی ممالک فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ساتھ شریک جرم رہتے ہیں، انہیں فلسطینی اتھارٹی پسند ہے کیونکہ یہ امریکہ کے اشارے پر وجود میں آئی ہے اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرتی ہے –
 
ایسی فلسطینی اتھارٹی اور اسی کی سیکورٹی ملیشیا کا کیا فائدہ کہ جو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائیلی فوج کے مظالم کو دیکھتی ہے اور سکون سے رہتی ہے- فلسطینی اتھارٹی کے لیڈروں کی مغربی ممالک کے لیڈروں سے ملاقاتیں کرنے، فوٹو سیشن کرنے اور بیانات دینے کا کیا فائدہ کہ جب اسرائیلی فوج ہر لمحہ فلسطینیوں پر زیادتیوں کے نئے باب کا آغاز کررہی ہے اور فلسطینی اتھارٹی کی ملیشیا ایک فرد کی زندگی کا تحفظ بھی نہیں کرسکتی- اسرائیلی فوج کا غلام بنے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی رام اللہ میں قائم حکومت کے دست نگربنے رہیں کہ جو خود امریکہ کی طفیلی ہے –

مختصر لنک:

کاپی