شنبه 03/می/2025

سعودی فرمانروا نے بین المذاہب مذاکرات پر عالمی کانفرنس کا افتتاح کیا

جمعرات 17-جولائی-2008

سعودی عرب کے فرمانروا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ نے انتہا پسندانہ تشدد کے خاتمے کی اپیل کے ساتھ بین المذاہب کانفرنس کا افتتاح کیا، جس میں مسلمان، عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے علماٗ اور دانشور نے شرکت کر رہے ہیں۔

میڈریڈ میں تین روزہ کانفرنس کا مقصد سعودی عرب کے مزید اعتدال پسندانہ چہرے کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، جسے گیارہ ستمبر 2001 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر ہر حملہ کے بعد سے سخت گیر مذہبی رحجان کے لئے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب نے کسی ایسے اجلاس میں یہودیوں کو بھی مدعو کیا ہے۔ شاہ عبد اللہ نے کانفرنس میں بدھ، ہندو اور سکھوں کو بھی شرکت کی دعوت دی۔

شاہ عبداللہ نے میڈرڈ کے شاہی محل میں منعقدہ کانفرنس سے اسپین کے بادشاہ جان کارلوس کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ” اختلافات، تصادم اور جھگڑے کا سبب نہ بنیںِ، ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تاریخ میں جو سانحے رونما ہوئے وہ مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں میں سے بعض افراد کی انتہا پسندی اختیار کرنے کی وجہ سے ہوئے۔”

شاہ عبداللہ کے خطاب میں جہاں دنیا میں قیام امن کے لئے ایک امید واضح تھی وہیں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مکالمے کے ذریعے اعلان جنگ بھی نمایاں تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں پوپ بینڈیکٹ سے ویٹیکن میں ملاقات کے بعد اس طرح کی کانفرنس کا منصوبہ بنایا تھا۔ کانفرنس میں دنیا بھر کے ˆ88مذہیی قائدین شرکت کر رہے ہیں تاہم میں کوئی یہودی ربی (مذہبی پیشوا) شامل نہیں ہے۔

بین المذاہب کانفرنس سے خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کے خطاب کے بعد حاضرین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور دیر تک تالیاں بجا کر شاہ عبداللہ کو خراج تحسین پیش کرتے رہے۔

خادم الحرمین الشرفین کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں اسپین کے بادشاہ جان کارلوس (اول) وزیر اعظم جوز زپیٹرو، ان کی کابینہ کے بعض اراکین اور وہ تمام مندوبین شامل تھے جنہوں نے خادم الحرمین کی تقریر کو اس صدی کا انقلاب قرار دیا۔

مختصر لنک:

کاپی