برنارڈ کوشنر کا کہنا تھا کہ بحیرہ روم کے لیے ممالک کے لیے بنائی گئی اس تنظیم ’یونین فار دی میڈیٹرینین‘ کے بنیادی مسودے میں تبدیلی لانی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے لیے ’قومی اور جمہوری ریاست‘ کے الفاظ استعمال کرنے میں مشکلات درپیش تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے اپنا علاقہ چھوڑ کر جانے والے فلسطینیوں کی واپسی میں مشکلات پیدا ہوں گی اور اسے یہودی یا غیر یہودی ریاست کہلانے میں بھی۔
’اس تحریر میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو کہ موزوں نہیں ہیں کیونکہ وہ اس تاریخی میراث کی یاد دلاتے ہیں جو غم اور قتل وغارت گری کی میراث ہے۔
فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھی اسرائیل کی طرف سے اپنے ملک کے لیے ’یہودیوں کی ریاست‘ کے الفاظ کی تجویز کو ’یکسر مسترد‘ کرتے ہیں۔
مسٹر مالکی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ہم اسے تسلیم کر لیں۔‘
اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا تھا کہ ان کا ملک فلسطینیوں کے ساتھ معاہدے کے اتنا قریب پہلے کبھی نہیں تھا۔انہوں نے یہ بیان فلسطینی رہنما محمود عباس سے بات چیت کے بعد دیا۔ جبکہ صدر محمود عباس نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اور کوئی نعم البدل نہیں سوائے امن کے حصول کے۔ یونین فار دی میڈیٹرینین نامی یہ تنظیم تینتالیس ممالک کے رہنماؤں کی مدد سے بنائی گئی ہے اور اس نئی تنظیم کی اہم ترین ترجیحات میں مشرق وسطیٰ کا تنازعہ حل کرنا شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ آلودگی اور نقل مکانی جیسے مسائل کا احاطہ بھی کرے گی۔
سربراہی اجلاس کی میزبانی کے فرائض فرانس کے صدر نکولا سارکوزی نے انجام دیے۔ان کا کہنا تھا کہ تنظیم کا مقصد اس خطے کے لوگوں میں جنگ کی بجائے امن اور محبت کے جذبات پیدا کرنا ہے۔
مسٹر سارکوزی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اپنے اختلافات اسی طرح ختم کرنے چاہئیں جیسے بیسویں صدی میں یورپ نے کیے تھے۔