پنج شنبه 01/می/2025

دوبارہ انتخابات کا کیا فائدہ ؟

جمعرات 17-جولائی-2008

عموماً کہا جاتاہے کہ ایک دانش مند شخص کنوئیں کی تہہ سے دیکھ سکتاہے لیکن ایک بیوقوف شخص کو پہاڑی کی چوٹی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا- یہ کہاوت بھی مشہور ہے کہ ایک دانا شخص دوسرے لوگوں کی غلطیوں اورنادان شخص اپنی غلطیوں سے سیکھتاہے لیکن احمق شخص نہ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتاہے نہ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے-

اوپر جو ضرب الامثال بیان کی گئی ہیں وہ امریکی حمایت میں رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی پر پوری اترتی ہیں‘ اتھارٹی غلطی کرتی ہے اور ایسی احمقانہ غلطیاں تسلسل سے جاری و ساری رکھتی ہے – ممکن ہے کہ ایک شرابی نشے میں دھت ہو کر یہ سوچنے لگے کہ وہ زمین کا سب سے بڑا شخص ہے‘ اسی طرح فلسطینی اتھارٹی اس پر پورا یقین رکھتی ہے کہ وہ ’’ریاست ‘‘ ہے یا زیرتربیت’’ریاست ‘‘ ہے- اس کا ’’اقتدار‘‘ ہے اس کی ’’خودمختاری ‘‘ ہے جبکہ اس کے پاس کوئی بھی چیز نہیں ہے-

فلسطین کے کتنے ہی شہروں‘ دیہاتوں میں اسرائیلی فوج ‘ عصمت دری کے واقعات کی مرتکب ہوتی ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری ’’فلسطینی اتھارٹی ‘‘ پر عائد ہوتی ہے- لیکن فلسطینی اتھارٹی نجانے اس ذمہ داری کو کیوں محسوس نہیں کرتی جب فلسطینی اتھارٹی میں مغربی ممالک کے نمائندے حتی کہ سربراہان مملکت آتے ہیں تو ان کے رویے سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ کسی ’’ریاست ‘‘ کا دورہ کررہے ہیں- اسی طرح فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین محمود عباس کا جو پرتپاک خیرمقدم کیا جاتاہے اس سے یہ احساس ہوتاہے کہ فلسطینی آخر کار نازی طرز کے اسرائیلی تسلط سے آخر کار نجات پایاہی چاہتے ہیں-

اسی طرح وہ لوگ جو غیر ملکی تسلط میں زندگی بسر کرتے ہیں‘ ان کے عمومی طور پر صدر‘ حکومتیں‘ وزراء اور وسیع نوکرشاہی نہیں ہوتی اور اگر ایسے عہدیداران موجود ہوں تو ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ’’سازشی ‘‘ ہیں‘ ’’غلام ‘‘ ہیں یا ’’کرائے کے ٹٹو‘‘ہیں- اسرائیل اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ فلسطینی اتھارٹی کی حقیقت سے روز اول سے آگاہ ہیں- یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’’اتھارٹی ‘‘یہاں تک کہ ’’ریاست ‘‘ کا جال بچھایا- فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین کے لیے ’’صدر‘‘اور فلسطینی اتھارٹی کے کارپردازوں کے لیے ’’وزراء ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جانے لگا-

فلسطین کے سیکورٹی افسران کواعلی ترین فوجی اعزازا ت سے نوازا گیا‘ان میں سے کئی ایک ملٹری سائنس سے اتنے ہی آگاہ ہیں جتنا کہ میں مریخ کی زبان سے آگاہ ہوں- دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس حالت میں ہو رہا ہے کہ جب فلسطینی اتھارٹی کی حیثیت ایک ’’بھکاری‘‘  کی سی ہے کہ جو اسرائیل سے سفر کے اجازت ناموں یا اسی قسم کی دیگر دستاویزات کی درخواستیں بھجواتی رہی ہے –
 
ہمیں ’’تعاون چاہیے کیونکہ دستخط شدہ معاہدوں کے مطابق ہمیں اپنے وعدے پورا کرنا ہیں- بہت سے فلسطینی یہ حقیقت سمجھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کی کوئی اتھارٹی نہیں ہے- اس کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ اپنے قیام کے پہلے دن سے اس کے وجود کی صرف ایک علامت ہے کہ اسرائیل اسے برقرار رکھناچاہتاہے – اب یہ فلسطینی اتھارٹی‘ فلسطینی سیاسی جماعتوں کواس پر تیار کررہی ہے کہ وہ ’’صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ‘‘ پر تیار ہوجائیں تاکہ جلد ازجلد ایک حکومت تشکیل دی جاسکے کہ جو ’’ملک چلا سکے‘‘ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم فلسطینی دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ’’مزاحیہ وجود‘‘بنتے چلے جا رہے ہیں اور ہماری حماقتیں تمام حدود سے آگے بڑھ چکی ہیں-

میں یہ سب کچھ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ کس طرح منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہے کہ جب ہم2005ءاور2006ءکےسالوں میں اسرائیلی رویہ دیکھ چکے ہیں- جب یہودی ’’گستاپو‘‘ جسے اسرائیلی سیکورٹی فورس کہا جاتاہے‘ کے سینکڑوں امیدواروں اور منتخب نمائندوں کو اغواکیا- انہیں یہ موقعہ بھی نہ مل سکا کہ اپنے دفاتر تک پہنچ سکیں- میں محمود عباس‘ سلام فیاض اور دیگر نمایاں افراد سے یہ معلوم کرنا چاہتاہوں کہ کیا انہوں نے امریکہ یا یورپ سے یہ ضمانت حاصل کرلی ہے کہ اسرائیل منصفانہ اور شفاف انتخابات ہونے دے گا اور اگر ایسے انتخابات منعقد ہوگئے تو ان کے نتائج کوبھی تسلیم کرلے گا-

2005ء میں میں نے الخلیل سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ظاہریہ شہر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی کوریج کی ‘ مجھے یاد ہے کہ انتخابات کے دوران ہی اسرائیلی فوج نے کئی مقامی امیدواروں کے گھر کا محاصرہ کرلیا ‘ ان میں وہ امید وار بھی شامل تھا کہ جس کے مئیر بننے کے امکانات تھے- اس طرح اسرائیلی فوج نے یہ پیغام پہنچا دیا کہ ’’یہاں اقتدار و اختیار اسرائیلی فوج کا ہے ‘ فلسطینی عوام کا نہیں ‘‘
فلسطینی مئیروں اور منتخب میونسپل کونسل کے اراکین کی بڑی تعداد ‘اسرائیلی قیدی خانوں‘ جیل خانوں اور نظر بندی مراکز میں گرفتار ہیں-

چاہے ان پر کوئی الزام عائد کیاگیا ہے یا نہیں ‘ یا ان پر ناجائز الزامات عائد کئے گئے ہیں مثلاً یہ الزام کہ ’’وہ یہودی عوام کی بقا کے لیے خطرہ بنتا جا رہاہے ‘‘اور ’’علاقے کی سلامتی کے لیے ایک خوفناک دھمکی‘‘ہے – آئیے ذرا اس بات کا جائزہ لیں کہ انتخابات کے بعد جو لوگ بطور اراکین سامنے آئیں گے اور اسرائیل کے وجود کو چیلنج کریں گے  یا انہیں اسرائیل ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے گا یا نہیں -کا کافی امکان ہے کہ اسرائیل ان سب کو ایک اور بار گرفتار کرے گااورفلسطینی عوام اسی افسوسناک سیاہ رات میں دوبارہ مبتلا ہوجائیں گے‘ جس میں وہ اب مبتلا ہیں‘ جو لوگ پہلے گرفتار ہوئے تھے وہ اب تک رہائی نہ پاسکے ہیں-
 
میں انتخابات کے انعقاد کا مکمل طور پر مخالف نہیں ہوں لیکن اسرائیل کو یقین دہانی کرنا چاہیے کہ جو لوگ منتخب ہوں گے ان کا احترام کیا جائے گا اور ان کی توہین نہیں کی جائے گی اور اگر اسرائیل ان میں سے کوئی بھی یقین دہانی نہیں کراتا تو پھر ہمیں ان انتخابات کے بارے میں بھول جانا چاہیے بلکہ اس کے بجائے اس پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہم فلسطینی اتھارٹی کے وجود ہی کو ختم کردیں- ہمیں اپنے  پ کو ایک بار پھر بے وقوف نہیں بناناچاہیے- ہمیں لوگوں کے سامنے حماقتوں کے مناظر نہیں پیش کرنے چاہئیں-

مختصر لنک:

کاپی