جمعرات کے روز دمشق میں شام ہوٹل میں عرب ثقافتی دارالحکومت کی تقریبات کی تیاری مہم کا تاسیسی اجلاس ہوا- عبدالعزیز سید نے تقریبات کی تیاری مہم کا آغاز دمشق سے کرنے کی وجہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ دمشق عرب اور امت مسلمہ کا ثقافتی دارالحکومت تصور کیا جاتاہے- یہاں پر صلاح الدین ایوبی کی آخری رام گاہ ہے – صلاح الدین ایوبی بیت المقدس کی واپسی میں ہمارے لیے سیاسی ، فکری اور ثقافتی نمونہ ہیں، لہذا بیت المقدس کو سال 2009ء کے لیے عرب ثقافتی دارالحکومت قرار دیئے جانے کی تقریبات کی تیاری مہم کا آغاز اسی شہر سے کیا گیا ہے –
مقدسات کے دفاع کی اسلامی مسیحی کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حسن خاطر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مقبوضہ بیت المقدس کے حوالے سے عرب ممالک کی جانب سے سرکاری طور پر کوتاہی برتی گئی ہے- قاہرہ میں عرب وزراء برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں بیت المقدس کی اسلامی حیثیت کی حفاظت کے لیے نشریاتی منصوبے کا فیصلہ کیاگیاتھا اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے آثار قدیمہ کی تلاشی کے بہانے جاری کھدائی کے عمل کے خطرات کا ادراک کیاگیا لیکن مقبوضہ بیت المقدس کو بچانے کے لیے ان قرار دادوں کاکوئی اثر نظر نہیں آیا-
ڈاکٹر حسن خاطر نے بیت المقدس کو عرب ثقافتی دارالحکومت قرا ر دیئے جانے کواسلامی شہر کی طرف توجہ کاایک سنہری موقع قرار دیا اور کہاکہ یہ ایک عظیم موقع ہے جس سے بیت المقدس کے متحد ہونے کی راہ کھلے گی- بیت المقدس ایک ہے اسے کوئی تقسیم نہیں کرسکتا – مقبوضہ بیت المقدس کو عرب ثقافتی دارالحکومت قرار دیئے جانے کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد مشکلات اور چیلنجز سے بھرپور ہے کیونکہ بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ ہے بلکہ صہیونی حکومت اسے بھنور میں غرق کرنے کی سازش میں مصروف ہے دیگر عرب دارالحکومتوں کی طرح بیت المقدس میں تقریبات کا انعقاد نہیں ہوسکے گا-
آج بیت المقدس کے حالات تصور سے بڑھ کر خراب ہیں- وہ نسل پرستانہ دیوار کے ہاتھوں مغوی ہے اور جغرافیائی لحاظ سے عربوں سے مکمل طور پر کٹا ہوا ہے- اس کے مقدسات کو تباہ کیا جا رہاہے اور ان کے تقدس کو پامال کیا جا رہاہے – اس کی تاریخ تبدیل کی جا رہی ہے ‘اسلامی آثار مٹائے جا رہے ہیں- گھروں کو تباہ کیا جا رہاہے ‘ اس کی زمینوں کو بربادکیا جا رہاہے- مقبوضہ بیت المقدس میں غربت کا تناسب 68فیصد سے بڑھ گیا ہے –
انٹرنیشنل القدس فائونڈیشن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری بشانہ مرھج نے کہاکہ بیت المقدس صرف ثقافتی سطح پر ہی ہماری گردنوں پر امانت نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی پروگرام کا حصہ ہے – ہم فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کے ہر مجاہد کو سلام پیش کرتے ہیں-
رومی آرتھوڈوکس کے مشرقی مطران کے معاون لوقا خوری نے بیت المقدس کو 2009ء کے لیے عرب ثقافتی دارالحکومت قرا ردیئے جانے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی مسیحیت کے سفر کا آغاز فلسطین سے ہوتاہے – بیت المقدس انسانیت کا دل ہے – اس کو نقصان پہنچنا پوری انساینت کو نقصان پہنچنا ہے – ہمارا بیت المقدس سے عہد طویل ہے – لوقا خوری نے تمام عرب ممالک سے بیت المقدس کو عربی ثقافتی دارالحکومت قرار دیئے جانے کی تقریبات کامیاب بنانے کی اپیل کی-
مشہور صحافی عثمان جدو نے کہاکہ ہم بیت المقدس کونہ صرف عرب ثقافت کا دارالحکومت کہہ سکتے ہیں بلکہ تمام دنیا کی ثقافتوں اور تہذیبوں کا دارالحکومت کہہ سکتے ہیں – جب ہم بیت المقدس کی بات کرتے ہیں تو ہم تمام مذاہب کی بات کرتے ہیں-
مرکز زیتونیہ برائے تحقیقات کے ڈائریکٹر جنرل نے تمام عرب حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اہل رائے کو اپنی رائے کے اظہار کے لیے آزاد ماحول فراہم کریں – ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے محققین کی تحقیقات حقیقی اور سنجیدہ ہوں – طلبہ کو چاہیے کہ وہ بیت المقدس کو اپنی تحقیقات کا مرکز بنائیں- یونیورسٹیوں کے نصاب میں بیت المقدس کو جگہ ملنی چاہیے – انہوں نے کہاکہ بیت المقدس ثقافت کا دارالحکومت بننے کا حق دار ہے بلکہ وہ دلوں کا دارالحکومت ہے- بیت المقدس کے لیے صرف 15لاکھ فلسطینی ہی کام نہیں کررہے بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور 6ارب انسان کام کررہے ہیں-
اجلاس کے آخر میں ڈاکٹر اسحاق فرحان کی سربراہی میں تیاری مہم کی کمیٹی تشکیل دی گئی- جس کے دیگر ارکان میں ڈاکٹر انطوان ضو، ڈاکٹر صدیق المجتبی اور ڈاکٹر احمد عبدالکریم شامل ہیں- کمیٹی نے تعاون پر شام کی حکومت اسلامی و عرب اداروں ، فکری اور ثقافتی اداروں اور اقتصادی شخصیات کا شکریہ ادا کیا-