یہ اسرائیلیوں کے نزدیک غیر معمولی سچائی اور مقدس اصول ہے ، یہودی کی زندگی، غیر یہودی کی زندگی سے زیادہ اہم ہے اسی طرح یہودی کا خون غیر یہودی کے خون سے زیادہ اہم ہے ، اسی نظریے اور عقیدے پر اسرائیل کا نظام انصاف قائم ہے – یہودیوں کے غیر یہودیوں سے تعلق کا یہ نظریہ ہر شعبہ زندگی میں کارفرما ہے ، مغربی کنارے ، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس میں نسلی تفریق کے عملی مظاہرے نظر آتے ہیں- گیلا دشالیت کا معاملہ ہی لے لیجئے ، اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو زخمی کیا ، گرفتار کیا اور جیلوں میں صرف اسی لیے ڈالا تاکہ اس شخص گیلاد شالیت کو رہا کرایا جائے جسے دنیا کے سب سے مشہور قیدی کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے –
دو سال قبل گیلاد شالیت جو ایک فرانسیسی خاندان کادوسری نسل کا بیٹا ہے ، کو فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے غزہ کی پٹی کے باہر حملے میں گرفتار کرلیا – فلسطینیوں کے اس اقدام کا مقصد یہ تھاکہ اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا جائے- اس مسئلے کو دانشمندانہ طور پر حل کرنے کے لیے اسرائیلی فوج نے سینکڑوں غیر مسلح فلسطینیوں کے خلاف کاروائی کی، ان کی عمارتوں پر بم گرائے، شہری نظام کو درہم برہم کیا- سڑکوں، پلوں اور پٹرول سٹیشنوں کو زمین بوس کردیا- اسی اثناء میں اسرائیلی ائیر فورس نے فلسطینیوں کے خاندان کے خاندان موت کے گھاٹ اتاردیئے ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے اور اس قتل عام میں کوئی رورعایت نہ رکھی گئی –
عمومی طور پر گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف وہی رویہ اختیار کیا کہ جو رویہ نازیوں نے جرمن افسر کی گرفتاری یا ہلاکت کے بعد دوسری جنگ کے بعد، سارے یورپ میں ردعمل ظاہر کرکے کیاتھا- شالیت جنگی قیدی ہے، اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ نرمی، برداشت ،احترام اور انصاف کا رویہ اختیار کیا ہوتا تو گیلا دشالیت کب کا رہائی پا چکا ہوتا-
جیساکہ اسرائیلی ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں، اسرائیلی حکومت نے تکبر سے کام لیا اور ایسا رویہ اختیار کیا کہ گیلاد شالیت کی رہائی، تمام فلسطینی عوام کی آزاد ی، خودمختاری اور عزت سے زندگی گزارنے سے زیادہ اہم اور قیمتی ہے – اسی رویے سے صہیونیوں کے سارے فلسفے کی سمجھ سکتی ہے ، نازیوں کا مسئلہ آریہ بالادستی کے نظریے پر مبنی تھا اور اسرائیلیوں نے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیاہوا ہے – آج دس ہزار سے زائد افراد اسرائیلی جیلوں میں غیر انسانی سلوک کا سامنا کررہے ہیں، ان کا جرم یہ ہے کہ وہ غیر ملکی تسلط پر یقین نہیں رکھتے اور اسرائیل کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں-
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پر ایسے ہلکے اور رسمی الزامات عائد کئے جاتے ہیں کہ جن کی وضاحت ممکن نہیں ، مثلاً یہ اس کا وجود، اسرائیلی ریاست اور اس کے عوام کے تحفظ کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے ‘چند ماہ پہلے ، اسرائیلی فوج نے ایک بیان جاری کیا کہ اگر کوئی فلسطینی الخلیل شہر میں خیراتی اداروں کے قرب و جوار میں پایا گیا جنہیں اسرائیلی فوج نے بند کردیا ہو، اس کو چھ سال قید کی سزا ملے گی، اس سلسلے میں یہ تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ جب کسی فلسطینی مرد یا عورت ، قیدی کی سزا ختم ہوتی ہے تو اسے اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ اس کے بعد اسے ایک اور طویل قیدمیں پھینک دیا جاتا ہے جسے انتظامی نظر بندی کا نام دیا گیاہے –
میں ذاتی طور پر کالجوں کے پروفیسروں ‘ پیشہ ور ماہرین اور ایسے اساتذہ سے آگاہی رکھتاہوں کہ جن کی قید کئی کئی برس پہلے ختم ہوگئی لیکن جج نے بس ایک جملے کے ذریعے اسے ’’انتظامی نظر بندی ‘‘ میں رکھنے کا حکم دے دیا اور اس کی قید میں چھ ماہ یا چھ سال تک کا اضافہ کردیاگیا- اس ہفتے، اسرائیلی جیل میں چونتیس مہینے نظر بندی میں گزارنے کے بعد رہا ہونے والے شخص نے مجھے بتایا کہ اسے اب بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ اسے صحرائے نقب کے کت زیوت نظر بندی کیمپ میں اتنے طویل عرصے کس جرم میں رکھاگیا- کت زیوت جیل میں وقت گزارنے والے شخص سے اسرائیلی جج نے سوال کیا کہ ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے کیا جرم کیا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا میں نہیں جانتا-
جج نے اس سے سوال کیا ’’کیا تم مسجد جاتے ہو‘‘ قیدی نے جواب دیا ’’ہاں ‘‘پھر اسرائیلی جج نے قیدی سے کہاکہ ’’تمہاری غلطی یہ ہے کہ تم مسجد جاتے ہو اور وہاں جا کر نماز پڑھتے ہو ،یہی وجہ ہے کہ تم کو قید کیاگیا ہے-
ایسے ججوں پر کیا اعتماد کیا جائے کہ جو غیر یہودیوں کے لیے اس قدر نفرت رکھتے ہیں- ان نام نہاد ججوں کے سامنے اگر ایک ’’بے گناہ ‘‘ ، ’’معصوم ‘‘ فلسطینی بھی جائے تو وہ اسے مجرم سمجھیں گے- اس کا سب سے بڑ ا قصور یہ ہے کہ وہ فلسطینی ہے اور اسرائیل کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہے- ان ہزاروں اسرائیلی یہودیوں کے بارے میں کیا رائے اختیار کی جائے کہ جنہوں نے فلسطینیوں کو قتل کیا، کیا انہوں نے نسل پرستی کا مظاہرہ نہیں کیا؟ ، ایک اسرائیلی فوجی نے جان بوجھ کر ایک فلسطینی لڑکی کو مارڈالا ،عدالت نے اسے ہلکا سا جرمانہ کیا-
اس کے مقابلے میں ایک فلسطینی ایک یہودی کو قتل کردے تو اس کا جرم کبھی معاف نہیں ہوتا اور اس کے مقدر میں لکھ دیا جاتاہے کہ طویل عرصہ قید میں گزارے گا- گیلاد شالیت کی رہائی کا ایک ہی راستہ ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی قیدیوں کو بھی انسان سمجھا جائے اور ان کی رہائی کا بندوبست کیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ جس طرح گیلا د شالیت کے گھر والے اس کے منتظر ہیں فلسطینی قیدیوں کے گھر والے بھی ان کے منتظر ہیں- جب اسرائیل فلسطینیوں کے بارے میں سوچے گا تو اس کے لیے اپنے فوجی کی رہائی کے بدلے میں فلسطینیوں کی رہائی آسان ہوجائے گی –