دس روز قبل طے پانے والے معاہدے سے لے کر اب تک بدعنوان عناصر نے اس معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے کئی اقدامات کئے ہیں ان میں سرحد پار ابتدائی درجے کے میزائل گرانا بھی شامل ہے، وہ حماس پر بھی الزام عائد کررہے ہیں کہ حماس نے مزاحمت کے ساتھ غداری کی ہے اور فلسطینی لوگوں کی جانب سے مزاحمت سے ہمدردی اور دلچسپی ناقابل فہم ہے، ایسے بیانات کا مقصد یہ ہے کہ ان بدعنوان لوگوں کے اصل عزائم کو چھپایا جائے – نیز اسرائیل کو اشتعال دلاکر اسے معاہدہ توڑنے پر مجبور کردیا جائے تاکہ وہ غزہ پر حملہ کردے اور حماس کا صفایا کردے اور غزہ کی پٹی اسرائیل اور امریکہ کے دوستوں کے ہاتھوں میں جائے –
فتح کے یہ لیڈر ، مغربی ذرائع ابلاغ اور اسرائیلی نمائندوں کو یہ خبریں یہ کہہ کر فراہم کرتے ہیں کہ ’’نام خفیہ رکھنے کی شرط ‘‘ کے ساتھ شائع کریں – فلسطینی اس بات سے خوب آگاہ ہیں کہ یہ کرائے کے لوگ سب سے پہلے امریکی جنرل کیتھ ڈائٹین کو جواب دہ ہیں جو عملی طور پر امریکہ رام اللہ میں ہائی کمشنر کے طور پر کام کررہے ہیں اوروہ بذات خود اپلیٹ ابرام کے سامنے جوابدہ ہیں جو بش انتظامیہ یہودی تنظیم ’’امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی ‘‘ (اپیک ‘‘ کے سامنے جوابدہ ہیں- ابرامز ،عرصہ دراز سے مغرب کی پشت پناہی والے ’’ماڈریٹس ‘‘ اور ’’انتہاپسندوں ‘‘ کے درمیان خانہ جنگی بڑھانے میں سرگرم عمل ہیں ، انہوں نے اس سلسلے میں کئی بیانات بھی دیئے ہیں-
لیکن رام اللہ میں قائم حکومت ان کے بیانات کے بارے میں خاموشی اختیار کیا رہے ، شاید وہ ابرامز کے بیانات کو لطیفہ سمجھتے رہے- بش انتظامیہ کا ہدف یہ تھاکہ فلسطینی معاشرے کو ایسی خوفناک تباہی و بربادی کے حوالے کردیا جائے کہ جس سے اسرائیل کو اور واشنگٹن کے ’’نیوکونز ‘‘ کو یہ موقع مل جائے کہ مسئلہ فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو کر رہ جائے-
ابرامز کے ذہن میں یہی بات تھی کہ جب پچھلے برس اس نے بڑی مقدار میں اسلحہ اور رقوم، اپنے ’’مرد مضبوط ‘‘ محمد دحلان کو فراہم کیاتھی – بقیہ کہاں سے ہم سب آگاہ ہیں ، حماس نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے ابرامز کے عزائم ناکام بنادے اور غزہ کی پٹی میں محمد دحلان کی بغاوت ناکام بنادی اور اس کے ساتھیوں کو بھاگتے بنی-
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے اب تک یہ کوشش جاری رکھی ہے کہ کسی نہ کسی طرح فلسطینی معاشرے میں فساد اور خانہ جنگی کا آغاز کیا جاسکے، انہوں نے اس وقت بھی حماس کو پیچھے ہٹانے اور گرانے کی کوششیں ترک نہ کیں کہ جب اسرائیل غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے لاشے گرا رہے تھے-
فتح کا ’’ففتھ کالم ‘‘ایک لمحہ ایسا آیا ہے کہ جب محسوس ہو رہاتھا کہ اسرائیل اور فتح شانہ بشانہ حماس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں-
پندرہ لاکھ اہل غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی میں اس گروپ اور اسرائیل کا جو کردار رہاہے وہ نازی دور کی یاد تازہ کرا رہاہے- انہوں نے پندرہ لاکھ لوگوں کو ناکہ بندی میں رکھ کر جو ذلت کمائی ہے اس کا داغ ان کے سرپر رہے گا- حماس کو نقصان پہنچانے میں ناکامی کے بعد یہ غدار کوشش کررہے ہیں کہ اسرائیلی قابض فوج کے ساتھ مل کر کوشش کررہے ہیں کہ مغربی کنارے میں حقیقی آزادی کی گردنوں میں شکنجہ ڈالا جائے چاہے ان کا تعلق فتح سے ہی کیوں نہ ہو- یہ سب کچھ اسرائیل کے ایماء پر ہو رہاہے اور اس سب کا موقعہ صرف یہ ہے کہ بش ،رائس ڈائٹین اور ابرامز کی خوشنودی حاصل کی جائے-
مجھے اس کا اندازہ ہے کہ فتح، کئی جماعتوں پر مشتمل ہے مجھے یہ بات بھی حقیقی طور پر معلوم ہے کہ اس تحریک میں کئی محترم اور قابل قدر ہستیاں موجود ہیں اور وہ اپنی جماعت کے بدترین عناصر کے کردار سے نالاں ہیں- یہ غدارفتح کے نام پر بیانات دے رہے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب اسرائیل اور امریکی سی آئی اے کے اشارے پر کررہے ہوتے ہیں- ان لوگوں کے پاس ابرامز کی دی ہوئی رقم ہے-
ان کی کوشش ہے کہ نہ صرف فتح کو اندر سے کھوکھلا کردیا جائے بلکہ فلسطینیوں کو بحیثیت مجموعی نقصان پہنچایا جائے- ضروری ہے کہ فتح کے لوگ خود آگے بڑھیں اور ان بدعنوان ، لالچی ، مجرم پیشہ غنڈوں کو نکال باہر کریں- حماس ہی نہیں وہ فتح کو بھی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں- اگر آپ نے انہیں نکال باہر نہ کیا تو وہ آپ کو نکال باہر کریں گے-