عمر نے بتایا کہ شن بیت کے ایجنٹوں نے اسے گالیاں دیں ‘حملہ کیا‘ اس کا مذاق اڑایا ‘ اس کو برہنہ کیا اور اس کو مستقل تشدد کا نشانہ بنایا گیا ‘ یہاں تک کہ وہاپنے حواس کھو بیٹھا اور نوے منٹ اسی حالت میں رہا- محمد عمر‘غزہ کی پٹی میں رفح کے علاقے کا رہنے والا ہے‘ اس کی حالت اتنی غیر ہے کہ وہ ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ شن بیت کے ایجنٹوں نے اس کے خلاف یہ سلوک کیوں کیا تاہم یہ حقیقت ہے کہ فلسطینی اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں اس قسم کی کاروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں- انہوں نے محمد عمر کے ساتھ انتہائی نفرت میز سلوک کیا ‘ وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ فلسطینی صحافی معروف ایوارڈ بھی حاصل کرسکتاہے- محمد عمر کی کہانی اس کے اپنے الفاظ میں یوں ہے-
26جون کو اسرائیلی جیل انتظامیہ نے کئی دنوں کے انتظار کے بعد مجھے اردن بھیجنے کا فیصلہ کرلیا‘جب میں ایلن بائی سرحدی راہداری پر پہنچا مجھے گھسیٹ کر ایک خصوصی کمرے میں پہنچا دیا گیا اور پھر مجھے ڈیڑھ گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا – اس دورانیے میں نیدرلینڈ کے صحافی جو میرے ساتھ تھے‘باہر کھڑے میرا انتظار کررہے تھے-
جب میں ایلن بائی برج کے اسرائیلی سمت پہنچا ‘میری ایک اسرائیلی خاتون افسر سے ملاقات ہوئی جس نے انتہائی ذلت آمیز انداز میں میرامذاق اڑانا شروع کردیا – وہ بار بار مجھ سے پوچھتی رہی کہ غزہ کہاں ہے اور کیا کہ میں اسرائیل کے راستے غزہ نہیں جاسکتا- بعد میں شن بیت کے ایک افسر نے جس نے اپنا نام ’’ایوی‘‘ بتایا مجھے ایک تنہا کمرے میں لے گیا جہاں مجھے ڈیڑھ گھنٹے تک کھڑا رکھا گیا- پھر اس نے مجھ سے کہاکہ’’ تم محمد عمر ہو -‘‘جی ہاں ‘میں نے جواب دیا- اس پر ایوی نے کہا کہ تم احمق شخص ہو‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم یورپ چھوڑ کر غزہ آ رہے ہو‘ جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی کا انتظام ہے- میں نے جواب دیا غزہ میرا وطن ہے‘ میں ایک صحافی ہوں اور میں ان لوگوں کی آواز بن جانا چاہتاہوں جن کی کوئی آواز نہیں ہے – ایوی نے مذاق اڑانے کے انداز میں مجھ سے سوال کیا کہ کیا میرے پاس ہینڈ گرنیڈ ‘بندوقیں یا چاقو یا دیگر ممنوعہ چیزیں ہیں؟ میں نے جواب دیا ایسی کوئی چیز نہیں ہے –
پھر اس نے مجھ سے کہا کہ جو انعام تمہیں ملا ہے اس کی رقم یہاں رکھ دو- میں نے جواب دیا کہ وہ رقم مجھے ابھی نہیں ملی ہے- پھر وہاں پرموجود شن بیت کے ایک ایجنٹ نے کہاکہ تمہارے پاس جتنی بھی رقم موجود ہے یہاں نکالو‘انہیں یقین نہیں آ رہا تھاکہ انعام کی رقم نقد میرے پاس موجود نہیں ہے- ایوی کے پاس ایک پستول تھا اس نے پستول مجھ پر تان لیا- رقم میرے پاس نہیں تھی کہ میں ان کو دیتا- انہوں نے مجھے الٹا لٹکا دیا-
کئی گھنٹے الٹا لٹکتا رہا- جب میں حواس باختہ ہوگیا تو انہوں نے کہاکہ ابھی تو ہم نے تمہارے ساتھ کچھ بھی نہیں کیا پھر وہ مجھے ایک اور کمرے میں گھسیٹ کر لے گئے اور مجھ سے پوچھا کہ میں برطانیہ‘ سویڈن اور یونان میں کیا بیانات دیتارہاہوں- اس افسر نے مجھ سے کہاکہ تم یورپ کے ان شہریوں میں ہمارے خلاف بیانات دیتے رہے ہو‘ کیا تم ان لوگوں کو جانتے ہو‘ وہ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں- پھر ایک اور افسر نے مجھے ٹھوکر یں ماری اور مجھے زمین پر گھسیٹنا شروع کردیا‘ وہ یہ سلوک دس منٹ تک میرے ساتھ کرتے رہے کہ میں گرپڑا اور بے ہوش ہوگیا- پھر وہ مجھے میرے قدموں سے زمین پر گھسیٹتے رہے اور میرا سرزمین پر مارتے رہے-
مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ اس عرصے میں وہ میرے ساتھ اور کیا سلوک کرتے رہے تاہم ایک شن بیت کا ایجنٹ میری آنکھوں کے نیچے اور میرے کانوں کے نیچے انگلی گھسیڑتا رہا اور جب میں فرش پر گرا پڑاتھا تو شن بیت کے ایک اور افسر نے اپنا بوٹ میری گردن پر مارا‘ جب کہ میں زمین پر پڑا ہواتھا- مجھے یوں لگ رہاتھا کہ میں مررہاہوں- میں نوے منٹ تک اس حالت میں رہایہاں تک کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر آیا ‘ اس کے پاس ایم 16رائفل تھی‘ اس نے میری ای سی جی کی‘ بعد ازاں کسی نے کہاکہ ایمبولینس اس سے پہلے کہ ایک فلسطینی ایمبولینس اریحا سے آتی کہ شن بیت کے ایک افسر نے کہاکہ میں ایک صفحے پر دستخط کروں-
اس پر تحریر تھاکہ شن بیت نے مجھ سے کوئی بدسلوکی نہیں کی- میں اپنے حواس سے محروم تھا‘ پریشان تھااور کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا -مجھے اریحا ہسپتال لے جایا گیا جہاں مجھے ڈاکٹروں نے بتایا کہ میں ٹھیک ہوں- اسرائیلی شن بیت کے ایک ایجنٹ نے اس کے موبائل فون میں ایک خاص اوزار رکھ دیا‘ جس کے ذریعے میری حرکت کی انہیں ہر وقت اطلاع ملتی رہے گی- ‘‘
محمد عمر نے دنیابھر میں اپنے دوستوں کو ای میل پیغام بھیجا کہ اسرائیلی ایجنٹوں نے میرے ساتھ یہ بدسلوکی کی ہے اور اس کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی جائے- اسرائیل ایسی قوم کومہذب قوم کہلانے کا بھی حق نہیں ہے- نید رلینڈ کی وزارت خارجہ نے محمد عمر کے ساتھ کئے گئے سلوک کی مذمت کی ہے- اسرائیل میں نیدر لینڈ کے سفارتخانے نے یہ معاملہ‘ اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ساتھ اٹھایا ہے‘ اسرائیل کی داخلی سلامتی کے ادارے شن بیت فلسطینیوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلتا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتاہے-