اپنی قوم کی تاریخ واقفیت رکھنے والا ہر دیانت دار یہودی اسلام کے بارے میں گہری ممنونیت کا احساس رکھتا ہے جس نے یہودیوں کو پانچ نسلوں تک بچایا جبکہ عیسائی دنیا نے ہمیشہ یہودیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور انہیں تلوار کی طاقت کے بل پراپنا عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا-
بنیامین نیتن یاہو اوراسرائیلی مصنف اورصحافی ڈینیل پائیپس صہیونیوں کے "اسلامو فوبیا” کی دو بدترین کلاسیکل مثالیں ہیں- اول الذکر مکمل طور پرصہیونی فاشزم کا بلند آہنگ انداز میں تذکرہ کر رہے ہیں جبکہ موخرالذکر امریکا اور یورپ سے مسلم دنیا کے خلاف صلیبی جنگ شروع کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں- یقینا وہ یہ سب کچھ اسرائیل کے لئے کر رہے ہیں-
آئیے پہلے ہر پہلو سے متعصب، جھوٹے اورمکار شخص نیتنیاہو سے بات کا آغاز کرتے ہیں –
گزشتہ دنوں نیتن یاہو نے یہ دعوی کیا کہ فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کی طرح نازی، مشرق وسطی کے مسئلہ کی بنیادی وجہ نہیں ہیں بلکہ گڑبڑ کی حقیقی وجہ "راسخ العقیدہ” اسلام ہے-
احسان فراموش صہیونی نیتن یاہو نےاس حقیقت کو بالکل نظرانداز کر دیا کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے ہولو کاسٹ کے دوران یہودیوں کو شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں بچایا تھا- اسی طرح انہوں نےاس حقیقت کو بھی فراموش کر دیا کہ یہودیوں کا سب سے سنہری زمانہ اس وقت تھا جب جنوبی سپین پر مسلمانوں کی حکومت تھی- بات یہ ہے کہ نیتن یاہو کوئی بھولنے والا شخص نہیں بلکہ وہ ایک عادی جھوٹا، مکار اور دوسروں سے نفرت کرنے والا ہے اور اسلام کے خلاف اس کا مسلسل معاندانہ طرز عمل دراصل اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کی نسل کشی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے ہے-
ان کے اس طرح کے حربے شاید مغرب میں کچھ افراد، خاص طور پر صہیونیوں کے کنٹرول میں میڈیا، کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائیں لیکن انٹر نیٹ اور آزاد صہیونی میڈیا کی دوسری شکلوں کی ایجاد سے اسرائیلی "سحر” کا اثر ختم ہوتا جا رہا ہے اور شمالی امریکا اور یورپ میں زیادہ سے زیادہ لوگ اس جرائم پیشہ ریاست کے بارے میں آگاہ ہوتے جا رہے ہیں-
نیتن یاہو اکثر اسرائیل کو اسلام کےغلبے والےعلاقے میں مغربی تہذیب اور آئیڈیلز کے نمائندہ کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن شاید اس جھوٹ کی حقیقت کوجاننے کے لئے اسرائیلی امور کا کوئی بہت زیادہ ماہر ہونے کی ضرورت نہیں ہے- اسرائیل بالآخر ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد قتل عام، بڑے پیمانے پر جھوٹ اورغصبیت پر رکھی گئی ہے اور یہ ایسی خصوصیات ہیں جنہیں شاید بہت سے مغربی باشندے پسند نہ کریں-
درحقیقت اگر اسرائیل مغرب کو کچھ یاد دلاتا ہے تو وہ بھی اسے یورپی تاریخ کے ایک افسوسناک اور بدترین باب کی یاد دلاتا ہے- ایک ایسا باب جسے یورپ ہرگز بھی دوبارہ دیکھنا نہیں چاہے گا-راقم جرمنی میں تھرڈ ریچ یعنی نازی دور کا حوالہ دے رہا ہے جب ماسٹر ریس (بہتر نسل) کے عنوان کے تحت یورپ کو تباہ اور ہزاروں لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا- آج اسرائیل میں جو کچھ ہورہا ہےاس کا ایک طائرانہ نگاہ سے جائزہ لیجئے- جو کچھ نازی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ ہوا وہی کچھ اسرائیل بے یارو مددگار فلسطینیوں کے ساتھ "منتخب لوگ” اور صہیونی قومیت پرستی کے نام پر کر رہا ہے- اسرائیل نے مشرق وسطی کےعوام کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا-
یہ بات درست ہے کہ اسرائیل بہت سے شعبوں میں ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے اوراس کی معیشت مضبوط ہے، لیکن اس سے کیا؟ نازی جرمن بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت زیادہ ترقی یافتہ اور اس کی معیشت بھی مضبوط تھی- سابق سوویت یونین بھی بہت زیادہ طاقتور اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت زیادہ آگے تھا-
جہاں تک نیتن یاہو کا تعلق ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح بالکل عیاں ہے کہ وہ نسل پرستی اور برائی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا شخص ہےاور اس کا یہ کردار مغربی آئیڈیلز کے بالکل متضاد ہے- مثال کے طور انسانی حقوق کے معاملہ ہی کو لے لیں- انیس سو نواسی میں اسی نیتن یاہو نے، جو "مغربی تہذیب” کو درپیش مزعومہ جعلی خطرات کا مبالغہ آمیز انداز میں تذکرہ کرتا رہتا ہے، بار ایلن یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "اسرائیل کو چین (تیانمن اسکوائر) میں مظاہروں سے پیدا ہونے والی صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ پوری دنیا کی توجہ چین کی جانب مرکوز ہے اور اسرائیل کو علاقے میں عربوں کا بڑے پیمانے پر نسلی طور پر صفایا کر دینا چاہئے-”
چند سال قبل اسی نیتن یاہو نے تل ابیب کے شمال میں ہرزلیہ کے انٹر ڈسپلنری مرکز میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنے عرب شہریوں کے ہاں شرح پیدائش کو قریب سے دیکھنا چاہئے کیونکہ وہ مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مقبوضہ بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل کی صہیونی شناخت کے لئے خطرہ ہیں-
چنانچہ، اس طرح کیسے نیتن یاہو صہیونی ایمپائر یا عبرانی زبان میں "یرتزاسرائیل ہاشلیما” بنانا چاہتے ہیں؟ اس کا جواب بڑا واضح ہے- وہ یہ ہوتا دیکھنا پسند کریں گے کہ مسلمان اورعیسائی تو ایک دوسرے کے گلے کاٹیں تاکہ اسرائیل اس خونریزی اورمغربی مفادات کے دفاع کے پردے میں مزید علاقے ہتھیا کر اپنی حدود کو وسعت دے سکے- نیتن یاہو دوسرے صہیونی رہنماؤں کی طرح ایک جنگ پسند شخص ہے- اس امر کی وضاحت اس کی جانب سے امریکا کو ایران پر حملے کے لئے اکسانے سے بھی ہوتی ہے کیونکہ واشنگٹن میں بیٹھے صہیونیوں کے آدمی اسرائیل کے ایماء پر بش انتظامیہ سے عراق پر حملے، اس پر قبضے اور اسے تاخت و تاراج کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں عراقی مارے گئے ہیں-
اب ہم آج کے دور کے جوزف گوئبلز ڈینئل پائیپس کی بات کرتے ہیں جو مسلسل ایک چوتھائی انسانیت کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہتا ہے- اپنے ایک حالیہ مضمون "دشمن کا بھی ایک نام ہے” میں پائیپس امریکا پر زور دیتا ہے کہ وہ اسلام ازم کو جڑسے اکھاڑ پھینکے اور مسلم عوام کو آزادی کے حصول، جمہوریت اور حق خود ارادیت سے محروم کر دے- اس نے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ "اسلام ازم کو ختم کر دیا جائے اور مسلمانوں کو اسلام کی متبادل شکل تیار کرنے کے لئے مدد دی جائے-”
آپ دیکھیں کہ کس دیدہ دلیری سے نازی ذہنیت کا حامل یہ شخص مسلمانوں سے ان کا اپنا مذہب تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ ان کا نیا دین اس کی مذموم خواہشات کے مطابق ہو- ڈیڑھ ارب لوگوں کے دین اسلام کے خلاف بش دور کا نسل پرست یہ شخص مغرب کو تجویز کرتا ہے کہ "اسے روایتی جنگ، کاؤنٹر ٹیررازم، کاؤنٹر پروپیگنڈا اورایسے ہی دوسرے حربے مشرق وسطی میں صہیونیوں کےغلبے کے مخالف اسلام کو دبانے کے لئے استعمال کرنے چاہئیں-"
پائیپس کیا کہہ رہا ہے؟ یہی کہ مسلمان یا تو یہودی تسلط کے آگے جھک جائیں اورعالمی صہیونیوں کےغلام بن جائیں یا پھرانہیں مکمل طور پر ختم کردیا جائے- اپنے مذموم مقاصد کی جلد تکمیل کے لئےوہ تجویز کرتا ہے کہ مسلمانوں کی حاشیہ بردار(غدار) حکومتوں کو پروان چڑھایا جائے(بالکل اسی طرح جس طرح نازی جرمنی نے اپنے مقبوضہ یورپ میں اپنی آلہ کار، حاشیہ بردار حکومتیں تشکیل دی تھیں) ایسی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری امریکی نو آبادیات اور اس کی مداخلتوں کی مخالفت کرنے والوں کا قلع قمع کرنا ہو-
پائیپس یہ تسلیم کرتا ہے کہ مغربی نو آبادیات کے ایجنٹ پوری مسلم دنیا میں کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں کیونکہ وہ کردار کے اعتبار سے شکست وریخت کا شکار افراد ہیں جو صرف تحقیق، ابلاغ، فنڈنگ اوردوسروں کو منظم اور متحرک کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں- اس کمزوری پر قابو پانے کے لئے پائیپس تجویز کرتا ہے کہ مغربی سامراج کے ایجنٹوں کی ٹھوس پشت پناہی کی جائے- لبنان میں فواد سینورا، افغانستان میں حامد کرزئی، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں محمود عباس اورعراق میں نوری المالکی ایسے ہی لوگ ہیں جن کی مغرب پشت پناہی کر رہا ہے-
اب سوال یہ ہے کہ اس نفرت انگیز، مجرمانہ ذہنیت اور نازی ذہنیت میں کیا فرق ہے؟ درحقیقت یہ دونوں ایک ہی طرح کی ذہنیت ہیں- جرمنوں نے وہ سب کچھ "بہتر نسل” کے نام پر کیا تھا اور پائیپس کی قبیل کے لوگ یہ سب کچھ "یہودی نسل کی برتری” کے نام پر کر رہے ہیں-
یقینا پائیپس کواپنے مرنے تک دن میں خواب دیکھنے کا حق حاصل ہے اوردن میں خواب دیکھنے والے کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہ مایوسی اور خیبت کی اعلی سطح کو چھو چکا ہوتا ہے-بالآخر آگ کو نگلنے کے لئے کچھ باقی نہ بچے تو وہ خود ہی کو نگل لیتی ہے-
________________
* (معروف فلسطینی صحافی و تجزیہ کار خالد امائرے کے مندرجہ بالا مضمون کو سینئر صحافی امیتاز احمد وریا نے انگریزی سے اردو کے قالب میں ڈھالا)