یورپی یونین کے رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے چالیس اعلی عہدیدار 24 جون کو برلن میں اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ فلسطینی سول پولیس کا قیام اوراس کے ذریعے مغربی کنارے میں قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جاسکے- اس کانفرنس میں اقوام متحدہ، عرب لیگ، امریکہ اور اسرائیلی نمائندوں نے شرکت کی-ہیومن رائٹس واچ میں مڈل ایسٹ کی ڈائریکٹر سارا پی وائٹ سن نے کہا ہے کہ برلن کانفرنس کے ذریعے موقع مل رہا ہے کہ مغربی کنارے میں انسانی حقوق کو مزید تحفظ فراہم کیا جاسکے- امداد دینے والے ممالک اس کو یقینی بنائیں کہ سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی گرفتاریوں، تشدد اور دیگر خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہو-
ہیومن رائٹس کے مطابق اس کانفرنس میں سول پولیس کے مسئلے پر غور و خوض کیا گیا- مغربی کنارے میں سول پولیس پر بہت کم الزامات ہیں، لیکن اس کوشش کامقصد یہ ہے کہ رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے اداروں کو مضبوط کیا جائے- اس طرح حماس کا متبادل تلاش کیا جاسکے اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کیے جاسکیں-
وائٹ سن کا کہنا ہے کہ سول پولیس کی کارکردگی بہتری ہو رہی ہے اور انہیں مزیدتعاون کی ضرورت ہے تاہم مغربی کنارے میں سیکورٹی کے جو دیگر ادارے کام کررہے ہیں وہ کئی قسم کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں- ہیومن رائٹس واچ حماس اور دیگر تنظیموں کے خلاف مغربی کنارے میں پچھلے ماہ خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے- غزہ میں حماس کی اکثریت ہے- حماس اور فتح کے ممبران کو نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے-
غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں ہونے والی خلاف ورزیاں ھیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں تفصیلات شامل کی گئی ہیں- یہ رپورٹ جولائی کے مہینے میں منظر عام پر آ رہی ہے- اس میں حماس اور فتح پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے سیکورٹی ادارے عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں- مغربی کنارے میں سیکورٹی فورس نے وارنٹ جاری کیے بغیر سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کرلیا- سیکورٹی فورس کے لوگ اپنے چہروں پر ماسک پہنے رکھتے ہیں اپنی شناخت نہیں کراتے اور اس شخص کو گرفتاری کی وجہ نہیں بتاتے جسے گرفتار کیا جاتا ہے- ان قیدیوں کے اہل خانہ کو بھی اس کا علم نہیں ہوتا کہ ان کے عزیزوں کو کیوں گرفتار کیا گیا نیز یہ کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے-
ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی مقامی تنظیموں نے غزہ کی پٹی میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے بارے
میں دستاویزی ثبوت فراہم کیے ہیں- ایسے ہی واقعات میں سے ایک واقعے میں ایک قیدی کی موت واقع ہوگئی، تشدد کے لیے گھونسے، مکے، لکڑی اور پلاسٹک پائپ سے تشدد اور ربڑ کے پائپ جسم پر مارنے کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں- فروری 2008ء میں ایک چھتیس سالہ مرد کو جس نے 2006ء کے انتخابات میں حماس کے لیے سرگرمی سے کام کیا تھا کو جنرل انٹیلی جنس سروس کے دفتر رام اللہ میں طلب کیا گیا- حماس اور اس کے قائدین کے بارے میں سوالات کرنے کے بعد اس پر دوبارہ تشدد شروع کردیا گیا- اس نے بتایا کہ تفتیش کرنے والے پانی کے بڑے نکاسی پائپ لے کر آئے انہوں نے فوجی سے کہا کہ وہ میری ٹانگوں پر بیٹھ جائے اور میرے پائوں کی پشت پر چوٹیں لگائے- میں نے اس فوجی شخص کو گرادیا- اس پر وہ سب مل کر مجھے مارنے لگے، مجھ سے کوئی سوال نہ کیا گیا-
جنرل انٹیلی جنس سروس نے اس شخص کو دس روز بعد رہا کردیا- اس پر کوئی جرم بھی عائد نہ کیا گیا، اس نے ایک دستاویز پر دستخط کیے کہ میں حماس کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات توڑ دوں گا- نہ تو اس پر کوئی الزام عائد کیا گیا، نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی اسے اجازت دی گئی کہ وہ وکیل سے رابطہ کرے-
ہیومن رائٹس واچ کے علم میں تشدد کا جو بدترین واقع سامنے لایا گیا اس کے مطابق گرفتار شدگان سے کہا جاتا ہے کہ اپنی ٹانگیں پھلا کر طویل عرصے تک کھڑے رہیں- جس سے بے انتہا درد ہوتی ہے اور اس سے جسم کے اندرونی حصوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے لیکن اس تشدد کی کوئی ظاہری علامت سامنے نہیں آتی- اس طرح کی سزا میں مجبور کیا جاتا ہے کہ کئی کئی گھنٹے تک اپنے پاؤں پھیلا کر کھڑے رہیں-
پھر اس کے ہاتھ اس کی پشت پر باندھ دیے جاتے ہیں- کبھی کبھار ایک ٹانگ اور ایک بازو کو باندھ دیا جاتا ہے، کبھی ایسی سزا بھی دی جاتی ہے کہ قیدی کو کرسی پر اس طرح بٹھایا جاتا ہے اس کے ہاتھ اس کے پائوں سے باندھ دیے جاتے ہیں- فلسطینی قانون میں جو تفصیلات درج ہیں، مغربی کنارے کی سیکورٹی فورسز اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی ہیں-
انتظامیہ قیدیوں کو یہ موقع فراہم نہیں کرتی کہ وہ وکیلوں سے رابطہ کرسکیں جب عدالتوں نے ان قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم بھی دیا تب بھی سیکورٹی فورسز نے ان کو رہا نہ کیا- مغربی کنارے کے سیکورٹی افسران نے ھیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ان گرفتاریوں کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے لیکن گرفتاریوں کا اصل نشانہ حماس کے کارکنان بنتے ہیں- چند لوگوں کو اس وقت رہا کردیا گیا کہ جب انہوں نے دستاویز پر دستخط کیے کہ وہ حماس سے تعلق توڑ دیں گے- اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس مہم کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں- ھیومن رائٹس واچ اور فلسطین کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقدامی سیکورٹی کی ملیشیا کے ہاتھوں خلاف ورزی کے کئی واقعات درج کیے ہیں- اس ملیشیا کے ساتھ کئی دوسری مسلح تنظیمیں ملحق ہیں- اقدامی سیکورٹی کا سربراہ زیاد حب الرب ہے اور وہ وزیر داخلہ عبد الرزاق یحیی کے آگے جوابدہ ہے- جنرل انٹیلی جنس سروس کا سربراہ توفیق طواری ہے جو فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے آگے براہ راست جوابدہ ہے – فلسطین کے اساسی قانون کی دفعہ 39 کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کا صدر تمام سیکورٹی فورسز کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے-
اقدامی سیکورٹی اور جنرل انٹیلی جنس سروس کو رقومات کہاں سے ملتی ہیں یہ غیر واضح ہے- جنرل انٹیلی جنس نے حال ہی میں اریحا میں جدید بنیادوں پر ٹریننگ کالج قائم کیا ہے- برلن میں ہونے والی کانفرنس میں سول پولیس اور قانون کی بالادستی کے لیے پیرس میں دستمبر 2007ء میں ہونے والی کانفرنس کے فیصلوں کا اتباع کیاگیا ہے جس میں امداد دینے والوں نے وعدہ کیا تھا کہ فتح کی بالادستی میں چلنے والی فلسطینی اتھارٹی کے لیے پانچ بلین یورو دیے جائیں گے-
یورپی یونین فلسطینی اتھارٹی کو رقم دینے والا سب سے بڑا دارہ ہے- اس نے فلسطینی پولیس کی امداد کے لیے یورپی یونین پولیس کو آرڈی نیشن آفس کا منصوبہ شروع کیا ہے جو لاکھوں یورو مالیت کا ہے اور اسے EUPOL COPPS کہا جاتا ہے- اس منصوبے کے مطابق سول پولیس عالمی پولیس سے تعاون کرے گی اور جرائم وانصاف کے معاملات میں فلسطینی اتھارٹی کی راہنمائی کرے گی-
EUPOL COPPS سول پولیس کے آٹھ سو افراد کی تربیت کررہی ہے- علاوہ ازیں انسانی حقوق کا ایک متعین حصہ بھی پڑھایا جارہا ہے پولیس کے لیے قانونی ڈھانچہ اور جیلوں کے انفراسٹرکچر کے لیے بھی یہ کام کررہا ہے- امریکہ کی کوشش ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی سیکورٹی فورس کو قوت فراہم کرے اور امریکہ کے سیکورٹی کوآرڈی نیٹر لیفٹیننٹ جنرل کیتھ ڈیٹن اس کی نگرانی کریں- محمود عباس کے تابعدار صدارتی گارڈز اور قومی سیکورٹی فورس کے لیے ساٹھ ملین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے- وائٹ سن کا کہنا ہے کہ امریکہ یورپی یونین اور امداد فراہم کرنے والے دیگر ممالک کو چاہیے کہ سیکورٹی فورس اس طرح تیار کی جائے کہ وہ کسی فلسطینی پر تشدد نہ کرے کسی شہری کو بلاجواز قید میں نہ ڈالے اور کسی دباؤ میں آئے بغیر آزادانہ عدلیہ کے ساتھ تعاون کرے-
برلن کانفرنس میں غزہ کو امداد دینے کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے- وہاں موجود حماس کے حکام کو چاہیے تھاکہ انسانی حقوق کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے اور بلاجواز گرفتاریوں کو روکنے کے لیے تفصیلی صورت حال پیش کرتے-