معاہدے کے ناقدین اسے حکومت کی کمزوری اور اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی حکومت کو غیر مشروط طور پر تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا- ناقدین میں ایک نام نائب اسرائیلی وزیر اعظم حائیم رامون کا بھی ہے، انہوں نے وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کی جانب سے معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے حماس سے معاہدہ جنگ بندی کر کے اپنے سابقہ اور قومی مؤقف کی خلاف ورزی کی ہے-
اسرائیلی عہدیدار نے مزید کہا کہ ہماری جانب سے حماس کو تسلیم کرلینے سے پوری دنیا کو یہ پیغام گیا کہ حماس کی حکومت جائز ہے- اسرائیل نے دو سال تک اسے تسلیم نہ کرکے کی غلطی کی اور مزید یہ کہ عالمی برادری جو حماس سے مذاکرات کی حامی نہیں وہ بھی حماس سے روابط بڑھائے گی جس کا اسرائیل کو خاطر خواہ نقصان ہوگا-
دوسری جانب اسرائیلی وزارت خارجہ نے بھی حماس سے جنگ بندی کو اسرائیل کے لیے بدترین چیلنج قرار دیا- وزارت خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار نے اسرائیلی اخبار ’’یدیعوت احرانوت‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ ممالک جو ماضی میں حماس سے مذاکرات کے حامی رہے ہیں وہ اسرائیل پر مزید دبائو ڈال سکتے ہیں-
اسرائیلی سیاستدانوں کے علاوہ فوج نے بھی جنگ بندی معاہدے پر کڑی تنقید کی ہے- اسرائیل کی جنوبی کمانڈ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ حماس سے جنگ بندی کو حکومت کے سرنڈر کے مترادف سمجھتے ہیں کیونکہ جنگ بندی کا فائدہ صرف حماس کو ہوگا جبکہ اسرائیل خسارے میں رہے گا-