اپنے اعزاز میں بلائے گئے کنیسٹ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ ”جوہری ایران کو قبول نہیں کیا جائے گا.جو کوئی بھی اسرائیل کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا تو فرانس اس کا راستہ روکے گا”.
اسرائیل مشرق وسطیٰ میں واحد جوہری قوت ہے جس کے پاس دوسو سے زیادہ ایٹم بموں اور وارہیڈز کا ذخیرہ موجود ہے.خطے کے ممالک اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کو مشرق وسطیٰ کے لئے براہ راست خطرہ تصور کرتے ہیں.حال ہی میں اسرائیلی کابینہ کے ایک وزیر نے دھمکی دی ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرسکتا ہے .ایک اور اسرائیلی عہدے دار نے فلسطینی عوام پر ایک ہولوکاسٹ مسلط کرنے کی دھمکی دی ہے.
نکولاسرکوزی نے سامعین میں موجود سرکاری حکام.فوجی کمانڈروں اور دوسری نمایاں شخصیات کی جانب سے داد و تحسین سمیٹتے ہوئے کہا کہ ”اسرائیل کو جان لینا چاہئے کہ وہ ایران کی جوہری خواہشات کے خلاف جنگ میں اکیلا نہیں ہے”.
لیکن توقع کے عین کے مطابق یہودی نژاد ہونے کےا دعوے دار فرانسیسی صدر نے اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کا کوئی حوالہ نہیں دیا.تاہم اسرائیل کے لئے اپنی محبت اور فرانس کی عرب دنیا کے بارے میں پالیسی میں توازن پیداکرنے کی غرض سے نکولا سرکوزی نے اتنا ضرور کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہئے.
”فلسطینیوں کو بھی اپنی ریاست کے فیام کا حق حاصل ہے اورایسی ریاست اسرائیل کے مفاد میں ہوگی”.ان کا کہنا تھا.سرکوزی نے اپنی تقریر میں ایکی اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا کہ فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ حل ہونے تک مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوگا اور اس نکتے کو اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان بات چیت میں مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہئیے. تاہم ان کی جس بات نے اسرائیلی حکومت کوغالباً سب سے زیادہ اپ سیٹ کیا وہ ان کی جانب سے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع کے کام کو فوری طورپرروکنے کا مطالبہ تھا ۔
انہوں نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ ”وہ ایسی قانون سازی کی حوصلہ افزائی کرے جس سے یہودی آباد کاروں کی مغربی کنارے کو خالی کرنے کے لئے حوصلہ افزائی ہو”. اس قسم کے ریمارکس ان انتہا پسند صہیونیوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتے جن کا عقیدہ ہے کہ عیسائیوں اور مسلمانوں سمیت غیریہودیوں کو فلسطین اور اسرائیل میں برابر کے شہری کی حیثیت سے رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے.
سرکوزی نے فلسطینیوں کی جانب سےاسرائیلی قبضے کی مزاحمت کو اسرائیل کے فلسطینی عوام کے خلاف جابرانہ اقدامات کا نتیجہ قرار دیا.ان کا موقف تھا کہ ”فلسطینی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑیں کیونکہ اس کے بغیر خطے میں امن نہیں ہو گا.جانبین کو اس کے لئے کوششیں کرنا ہوں گی.اگر فلسطینی آزادانہ طور پر نقل وحرکت نہیں کر سکتے تو اس کے بغیر امن بھی ممکن نہیں ہوگا۔
کنیسٹ میں سرکوزی کی تقریر سے پیلے انتہا پسند اسرائیلی رہنماٶں…جن میں لیکوڈ پارٹی کے رہنما بنیامین نیتن یاہو نمایاں تھے…اسلام کے خلاف نفرت انگیز جذبات کے اظہار کی کوشش کی.اسلام کی مخالفت کے لئے مشہور نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ ”راسخ العقیدہ اسلام آزاد دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے”. نیتن یاہو نے اسلام کا نازی ازم سے موازنہ کرنے کی بھی کوشش کی. جس پر کنیسٹ کے عرب ارکان نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا.فلسطینی رکن احمد طیبی نے نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”اسلام اور نازی ازم کے درمیان یہ کیا احمقانہ موازنہ کیا جارہا ہے.آپ کو خود پر شرم آنی چاہئے .کیاآپ نازی ازم کی تاریخ نہیں جانتے.مسلمانوں نے یہودیوں کو مغربی ممالک میں نازی ازم سے بچایا تھا.نازیوں کے ساتھ مشرقی نہیں مغربی ملکوں کے باشندے تھے.تم ایک ایسے شخص ہو جس کو کوئی شرم نہیں ہے”.
نیتن یاہو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے بش انتظامیہ کو افغانستان اور عراق پر حملوں کے لئے اکسانے میں مرکزی کردارادا کیا تھا.ان دونوں جنگوں کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر بے گناہ شہری تھے.اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کا مخالف سابق اسرائیلی وزیر اعظم اب امریکا پر مسلسل یہ زور دے رہا ہے کہ وہ ایران پر حملہ کرے تاکہ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں فوجی بالا دستی قائم ہوسکے.
بدعنوانی کے سکینڈل سے دوچار اسرائیلی وزیر اعظم ایہوداولمرٹ نے سرکوزی کی قیادت میں اسرائیل اور فرانس کے تعلقات کے احیاء کو سراہا.” ان کا کہنا تھا کہ ہم آپ کے حوصلے .آپ کے اصولوں اور دوستی پرآپ کے شکر گزار ہیں