ایک نئی تحقیق کے مطابق آج سے صرف پندرہ برس بعد اسرائیل داخلی طور پر تباھی و بربادی کا شکار ہوکر ختم ہو جائےگا اور اس تباھی کی وجہ ایرانی ایٹم بم یا عرب ممالک کی افواج نھیں بلکہ خود اس کی اپنی پالیسیاں ہوں گی۔ "مملکت تل ابیب :اسرائیل کے لئے مہیب خطرہ” کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ رپورٹ حیفا یونیورسٹی نے شائع کی ھے۔اس پراجیکٹ کا اصل عنوان "غلط پالیسیوں کے نتائج اور داخلی ٹوٹ پھوٹ کے اسباب” تھا۔
رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین میں آباد یہودیوں کے بڑے شہروں کا حجم ضرورت سے زیادہ بڑھ چکا ہے، بے پناہ آبادی اوربڑی معیشت، شہری سہولتوں کی فراوانی یہ ان شہروں کا نیا منظر ہے جبکہ فلسطین کے سرحدی علاقے ان سھولیات سے مکمل تھی دامن ہیں۔
اسی وجہ سے یہود ی آبادی تل ابیب اوراس کے قرب و جوار میں اکٹھی ہوتی جا رہی ھے جبکہ فلسطینی مسلمانوں کی آبادی کا ارتکاز زیادہ تر فلسطین کے اطراف پر واقع علاقوں میں ہو چکا ہے۔
مملکت تل ابیب
اسرائیلی آبادی دن بدن سرحدی علاقوں سے نقل مکانی کر رہی ہے اور تل ابیب اور اس کےاطراف میں آباد ہو رہی ھے جہاں اجتماعی زندگی کے بنیادی لوازم پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ھیں، یہودی آبادی بکثرت موجود ہے، بلدیاتی خدمات اور شہری سہولیات سارے فلسطین کو نظراند از کرکے یہیں اسی ایک منطقے میں جمع کردی گئی ھیں۔ لہذا اہل یہود بھی دیگر علاقوں کی بہ نسبت یہاں ٹھکانہ بنانا زیادہ پپسند کرتے ھیں اورانہی علاقوں میں آباد ہوتے جارھے ہیں۔
یہاں آباد یہودیوں کی معاشی حالت بھی اطرافِ فلسطین میں آباد یہودیوں سے بدرجہا بہتر ہے جس کے نتیجے میں ان کا معیار زندگی اور لذات حیات پر ان کا تصرف بھی کہیں بڑھ کر ہے۔
یہود میں تل ابیب کی پسندیدگی بڑھانے میں جہاں اور اسباب کا عمل دخل ہے وھیں پر یہودی صحافت بھی اسے بڑھاوا دینے میں پیش پیش رہی ھے۔ میڈیا نے یہاں کی زندگی کی کچھ ایسی گلیمرس تصویرعام یہودیوں کے ذھن میں بٹھائی ہے کہ عام لوگ اسے جنت کا ٹکڑا اور اپنی ساری تکلیفوں کا مداوا سمجھنے لگے ھیں جبکہ تل ابیب سے ھٹ کر دیگر علاقوں کی حالت زار کو میڈیا نے سرے سے نظر انداز کیا ہے۔
سفید کاغذ پر سیاہی کے دھبے
تل ابیب سے باھر یہیودی آبادیوں کو اگر نقشے میں دیکھا جائے تو وہ سیاہی کے چھوٹے چھوٹے دھبوں سے بڑھ کر کچھ نظر نھیں آتے۔ اسرائیل کی سرکاری پالیسی تو یہی ھے کہ یہودی آبادی کو پورے فلسطین میں اور فلسطین کے اطراف و اکناف میں اس طرح تقسیم کر کے بسایا جائے کہ کوئی علاقہ یہودیوں کے وجود سے مکمل طور پرخالی نہ ہو، لیکن عملا یہودی آبادیوں کو تل ابیب میں سمیٹ لینے کا عمل بھی پورے زور و شور سے جاری ہے۔
نقل مکانی کا یہ عمل اگر اسی طرح جاری و ساری رہا تو اس بات کا قوی امکان موجود ھے کہ اہل یہود اقوام متحدہ کی 1948 میں تقسیم فلسطین کی پاس کردہ قرارداد کو خود اپنے ہی ہاتھوں عملی جامہ پہنا دیں گے۔ ان کا وجود ہر طرف سے سمٹ کر ایک مختصر سی ساحلی پٹی تک محدود ہو کررہ جائے گا۔ ایک ایسی مختصر سی مملکت جس کا کل حدود اربعہ حیفا سے عسقلان تک ہو اور جس کا مرکز تل ابیب ہو۔اس صورت میں اسرائیل کے بقا کی ضمانت بے حد مختصر مدت کے لئے ہی دی جاسکتی ہےمذکورہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2020ء تک تباھی کے آغاز کا سال ہے۔
عالمی مثالیں
سیکیورٹی پلان اور سیکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو قلب مملکت تک محدود کردینا اسٹراٹیجک اور دفاعی نقطہ نظر سے بھی انتہائی خطرناک ہے۔ پھر اس پر مزید خطرے کی بات اہل یہود کی آبادی میں کمی کا ہونا ھے۔ اس وقت اہل یہود مجموعی فلسطینی آبادی کا 49.2 فی صد ھیں اور توقع ھے کہ سنہ 2025ء تک ان کی آبادی کم ہو کر مجموعی آبادی کا 41.8 فی صد رہ جائے گی اور عربی اور اسلامی سمندر کے درمیان اس جزیرہ کا عالم کیا ہوگا اس کا بخوبی تصور کیاجاسکتا ھے ۔
مرکز میں سیکیورٹی اداروں اقتصادی سرگرمیوں اور شہری سہولتوں کو مرتکز کرنے کا انجام کیا ہوا کرتا ھے اس کا اندازہ عالمی منظر ناموں میں اس سے ملتے جلتے حالات کا تجزیہ کرنے سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ جیسے جنوبی سوڈان، کردستان، آذر بائجان، جنوبی لبنان، سابقہ یوگوسلاویا، یوکرائن، اورکینیڈا کا کوبک کا علاقہ۔
1967ء کا مقبوضہ فلسطین
1967 کے مقبوضہ کے فلسطینی سیاسی، شہری، اجتماعی اقتصادی اور ثقافتی حقوق سے یکسر محروم ہونے کی وجہ سے مملکت اسرائٰیل کے بارے میں قطعا کو ئی نرم گوشہ نھیں رکھتے۔ بلکہ اسے ایک دشمن کے قبضہ سے زیادہ کوئی مقام دینے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہیں۔
67ء کے مقبوضہ فلسطین میں مسلسل تشدد اور یہاں کے عربوں کی دلیرانہ مزاحمت کا بھی یہودیوں کی نقل مکانی میں اہم کردار ہے۔ اب یہودیوں کی بڑی تعداد کی نقل مکانی کے بعد مملکت اسرائیل کی سیادت ان علاقوں میں کم ہی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح اسرائیلی حکومت نے بھی یہاں پر ترقیاتی کاموں میں دلچسپی کم کردی ہے۔
اس صورتحال میں اسرائٰیل کے سامنے صرف ایک ہی راستہ باقی ہے کہ فلسطین کے اطراف و اکناف میں ایک بار پھر یہود کو بسانے کا منصوبہ بروئے کار لائے اور یہاں کی فلسطینی آبادی کو ان کے جائز حقوق لوٹا کر مطمئن کرے۔ وگرنہ عین ممکن ھے کہ یہاں کی عرب آبادی خود ہی آزاد مملکت کے قیام کی راہ پر نہ چل پڑے۔