چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیلی فوجی مشقیں : اصل ہدف کون؟

بدھ 25-جون-2008

حالیہ جون کےپہلے ہفتے میں، میڈیا کے عقابوں سے دو، جدید ترین اسلحہ سے لیس اسرائیلی فضائیہ نے بحر متوسط کے مشرقی کنارے پر یونان کی فضائی حدود کے اندر بھرپور فوجی مشقیں کیں۔

اسرائیل کی یہ فوجی مشقیں، جنہیں وہ پورے دو ہفتے تک خفیہ رکھنے میں کامیاب رہا، کہا یہ جارہا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو ٹارگٹ کرنے کے لئے فل ڈریس ریہرسل تھی، جس میں غیر معمولی طور پر ایک سو جنگی جہازوں، جن میں ایف سولہ اور ایف پندرہ بھی شامل تھے، نے حصہ لیا۔

مشقوں کی خبر منظرعام پر آنے کے بعد اب تجزیہ نگاران کے اصل ھدف کے بارے میں قیاس آرائیوں میں مصروف ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان مشقوں میں بڑی تعداد میں ہیلی کاپٹرز نے بھی حصہ لیا۔ مشقوں میں ان کا ہدف ایسے ہوا بازورں کی جان بچانا تھا جنھیں دشمن طیاروں نے مار گرایا ہو اور ان کے پائلٹس دشمن علاقے میں پیراشوٹ کے ذریعے جمپ لگا نے میں کامیاب ہوجائیں۔

مبصرین قیاس آرائیوں میں مصروف ہیں کئی ملین ڈالر کے اخراجات سے مکمل ہونے والی ان مشقوں کے پیچھے اسرائیل کا اصل مقصد کیا تھا ؟

تاہم ایک بات واضح ہے کہ ان فوجی مشقوں کے ذریعے اسرائیلی فوج، بالخصوص اسرائیلی فضائیہ اپنی سٹرٹیجک پلاننگ میں بنیادی تبدیلی لائی ہے تا کہ دور دراز کے اہداف کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کی جاسکے۔ اس سے قبل اسرائیلی فضائیہ کی ساری پلاننگ اور اس کے اسلحہ خانے کا سارا ذخیرہ صرف قریبی اہداف کو ٹارگٹ کرنے کے لئے تھا۔ انہوں نے اس بات کا کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ 1440 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود کسی ٹارگٹ کو ہدف بنایا جائے گا۔ یہی ان مشقوں کا اولین ہدف بھی قرار دیا گیا تھا۔ ان مشقوں میں عام جنگی اسالیب سے ہٹ کر جنگ کے نئے انداز بھی متعارف کروائے گئے ۔

شاید گذشتہ مہینے کے اختتام پر اسرائیلی فضائیہ کی قیادت سے ائیر مارشل ایلی شکیدی کی سبکدوشی بھی اسٹراٹیجیک پلاننگ میں تبدیلی کے اسی منصوبہ کا حصہ تھی۔ واضح رہے کہ مذکورہ مشقوں کا میدان 1440 کلومیٹر طویل تھا اور اسرائیل سے ایران کے واحد ایٹمی ریکٹر ناتانز جس میں یورینیم کو علانیہ طور پر افزودہ کیا جارہا ہے کا فاصلہ بھی اسی قدر مسافت پر مبنی ہے۔

ان مشقوں کے پیچھے دوسرا ہدف انٹیلی جنس کا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل بڑی طاقتوں کی خفیہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو یہ باور کرانے میں پوری طرح کامیاب رہاہے کہ تنہا اسرائیل ایران کو ٹارگٹ کرنے کی پوری استعداد رکھتا ہے۔ اسرائیل کی اس نیت کا اندازہ اس بیان سے بخوبی واضح ہے جو امریکی وزارت دفاع کے ذرائع نے دیا ہے”اسرائیل نے ہمیں اپنی فوجی صلاحیت سے متاثر کر نا چاہا ہے اسی طرح یوروپین طاقتوں کو بھی اور ظاہر ہے کہ ایران کو بھی مرعوب کرنا مقصود ہے”۔ پینٹاگون کے مذکورہ ذرائع کے مطابق "ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل بالفعل ایران کو ٹارگٹ بنانے پر تلا بیٹھا ہے”

دوسری جانب ِان مشقوں میں حصہ لینے والے طیاروں نے خاصی بلندی پر فضائی جنگ کی بھی باقاعدہ ریہرسل کی ،اسی طرح فضا میں ہی ایندھن بھرنے کی مشق بھی کی گئی تا کہ اسرائیلی طیاروں کی اڑان کو بڑھاوا دیا جا سکے۔ یہی وہ بنیادی مشکل تھی جو اسرائیلی طیاروں کو درپیش رہا کرتی تھی۔

لیکن ایک اور اہم سوال ابھی باقی ہے وہ یہ کہ امریکی وزارت دفاع نے ہی اور نیویارک ٹائمز کے ذریعے ہی ان مشقوں کی خبر کیوں لیک آؤٹ کی گئی ؟ نیویارک ٹائمز کی خبر چند ہی گھنٹوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے؟
بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک اس کی بنیادی وجہ موجودہ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس ہیں جو اسرائیل کی تنہا ایران کو ٹارگٹ بنانے جیسی کسی بھی حماقت کے سخت خلاف ہیں۔

اسی طرح اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی، اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے عوض حماس کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کی خبروں اور مجوزہ امن سمجھوتے کی باز گشت کے درمیان کسی نےاسرائیلی فوجی سربراہ بریگیڈئیر جابی أشکنازی کے اس بیان کا پوری طرح نوٹس نہیں لیا جو انھوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کی کمیٹی برائے امن اور خارجہ امور کے سامنے 17 جولائی کو دیا ہے۔

اس بیان میں اشکنازی کا کہنا تھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے مد نظر اسرائیلی افواج کو ہر طرح کے حالات کے لئے تیار رہنا چا ہئے۔ بالخصوص اس لئے بھی کہ عالمی برادری، بشمول اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپ کی جانب سے ایران پر لگائی گئی پابندیاں بے اثر ثابت ہوئی ہیں اور ایران کے ایٹمی پروگرام کو کسی طرح بھی رکوایا نھیں جاسکا۔

کہا جا رہا ہے کہ ایران پر حملہ اس قدر سادہ اور آسان نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب اسرائیل کے لئےچومکھی جنگ ہے۔ (ایرانی، شامی محاذ، حزب اللہ کے ساتھ جنگ اور حماس کے ساتھ جنگ) اسی لئے بعض مبصرین اشکنازی کے بیان کو اسرائیلی افواج اور اسرائیلی حکومت کے ان ناقدین کا جواب قرار دے رہے ہیں جن کے مطابق فوج اور حکومت غزہ اور حزب اللہ کے خطرے سے آنکھیں چرا رہی ہے اور اس وقت صہیونی مملکت کے فیصلہ سازوں میں یہی رائے زیادہ غالب اور قوی ہے۔ اس رائے کے حامی کہہ رہے ہیں ہیں کہ 1400 میل کی دوری پر کار روائی کرنے اوراپنی قوت کو جگہ جگہ صرف کرنے کی بجائے اپنی ساری توانائیاں دروازے پر موجود دشمن کےخلاف صرف کرنی چاہئیں۔

تاہم ان مشقوں کے بارے میں چند نقاط ایسے ہیں کہ جن پر تجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔
ٹھیک ہے، یہ ضروری نھیں کہ ان مشقوں کا مطلب صرف اور صرف ایران کو ہدف بنانا ہے ہر قوم اپنی جنگی حکمت عملی ترتیب دینے میں آزاد ہے وہ کسی بھی ممکنہ حملہ کے سد باب کے لئے کوئی سی حکمت عملی اختیار کرسکتی ہے۔
اور یہ بھی کہ اسرائیلی فضائیہ کے سامنے ہمیشہ یہ مسئلہ رہا ہے کہ وہ دور پار کے دشمنوں سے کیسے نپٹے، اور ان مشقوں میں خصوصی طور پر ایسی مشقیں شامل تھیں جن سے اس قسم کی استعداد حاصل ہوتی ہو جیسےجنگی طیاروں میں دوران پرواز فضا میں ہی ایندھن بھرنا تا کہ یہ جنگی مشین بغیر زمین پر اترے دور کی مسافت طے کرسکے۔

ان مشقوں میں ہیلی کاپٹرز کی شمولیت بھی ایک اہم سوال ہے۔ اس سے شک یہ پڑتا ہے کہ مشقوں کا اصل ہدف ایران نھیں بلکہ قریب میں موجود حزب اللہ ہے۔ کیوں کہ دور کی مسافت پر واقع ٹارگٹ کے خلاف خفیہ آپریشن میں ھیلی کاپٹرز کی شمولیت کسی طرح بھی مناسب نھیں ہوسکتی۔ لیکن قریب کے ہدف جیسے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف بری اور فضائی آپریشن میں انھیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ان سب سے اہم تر بات یہ کہ اسرائیل ان مشقوں کے بارے میں سنجیدہ کس قدر تھا یا پھر یہ گھر میں حکومت پر ہونے والی تنقید اور اسرائیلی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا ایک ذریعہ تھا، اسرائیلی حکومت اس وقت کرپشن کے بدترین الزامات کا سامنا کر رہی ہے، فوج غزہ اور جنوبی لبنان میں بری طرح پٹ چکی ہے۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ اسرائیل نے حالیہ مشقیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کی ہیں اور رائے عامہ کی گمراہی مقصد نھیں تھا۔ اس لئے کہ ان مشقوں کو اسرائیل نے اپنے عوام سے بھی تین ہفتوں تک چھپا ئے رکھا تھا اور جس امریکی اخبار نے اس خبر کو شائع کیا اس نے بھی وضاحت کی ہے کہ یہ خبر امریکی حکومت کے ذرائع نے دی ہے۔

سب سے زیادہ درست بات یہی بات لگتی ہے کہ اسرائیلی حکومت نے ایران کے منظرنامے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے فوجی آپشنز کی جانچ کے لئے یہ مشقیں کی ہوں گی عملاً وہ اس آپشن کو اختیار کرنے میں ہرگز جلد بازی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب خطے کے حالات بتا رہے ہوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے تنہا ایران ہی سے جنگ نھیں مول لینی ہوگی بلکہ اسے چومکھی جنگ لڑنی پڑے گی۔

اور یہ چومکھی جنگ ہوگی کیسی؟

ایران کا اپنی مسلح افواج کو حرکت میں لاکر اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیتا، یا پھر القدس فدائیین کی جانب سے خاص فدائی کاروائیاں ہوتی ہیں۔ شام کی جانب سے جواب، یا تو وہ خود جنگ میں کود پڑے یا پھر اپنے فضائی اڈے اور دوسری عسکری سہولیات ایرانیوں کے حوالے کردے گا۔

لبنانی محاذ جس کی قیادت حزب اللہ کے پاس ہے اور اسرائیل اس وقت اسے غیر مسلح کرنے کے کے لئے سب سے زیادہ جتن کر رہا ھے۔ پھرغزہ کا محاذ جہاں اسرائیل فلسطین کے اندر تیار ہونے والے میزائلوں کے حملے روکنے میں بری طرح ناکام رہا ہے اور وہ اب صلح اور جنگ بندی کے چانس کو قبول کرنے پر مجبور ہوچکا ہے کم از کم حالیہ دنوں کا منظر نامہ تو یہی ہے۔

 

مختصر لنک:

کاپی