پنج شنبه 01/می/2025

ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی اسرائیلی تیاریاں

منگل 24-جون-2008

ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے اسرائیلی تیاریاں جاری ہیں- اسرائیلی وزیر اعظم ایہوداولمرٹ نے گزشتہ روز سابق جنر ل افیٹام سیلع سے ملاقات کی جس نے 1981ء میں عراقی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا-

اس ملاقات کی اہمیت اس رپورٹ کے بعد زیادہ ہوجاتی ہے جس کا امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیاتھاجس کے مطابق اسرائیل یونانی جزیرہ کریت میں فوجی مشقیں کررہاہے جو اسرائیل سے اتنے ہی فاصلے پر ہے جتنے فاصلے پر اسرائیل سے ایران ہے –
 
یونان نے ان مشقوں کی تصدیق تل ابیب سے عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ’’معاریف ‘‘ کے مطابق جنرل افیٹام سیلع سے ملاقات اسرائیلی وزیراعظم کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھی اور اس ملاقات کو خفیہ رکھا گیاتھا- لیکن وزیراعظم کے دفتر نے سابق فوجی جنرل اور ایہود اولمرٹ کے درمیان ملاقات کا اعترا ف کیاہے- اخبار کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم ریزرو فوجی جنرل سے ایران کے خلاف اسرائیلی فضائی حملے کے امکانات جاننا چاہتے ہیں- جنرل افیٹام سیلع کو اسرائیلی ائیر چیف بنادیا جاتا اگر وہ امریکہ میں اسرائیلی جاسوس جوتھان بولارڈ کی گرفتاری کے مسئلہ میں ملوث نہ ہوتے –

افیٹام سیلع نے جاسوس جوتھان بولارڈ سے رابطہ کیاتھا- معاریف اخبار کے مطابق فوجی تجزیہ نگار عمیر ربا بورٹ کے مطابق ایران کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف حملے کے حوالے سے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ اور حالیہ دنوں میں نشر ہونے والی دیگر رپورٹوں سے معلوم ہوتاہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے حوالے سے اسرائیل ہی باقی رہ گیا ہے- امریکی صدارتی امید وار بارک اوباماکے حالیہ بیان سے تاثر ملتاہے کہ اسرائیل اکیلا ہی ایران پر حملہ کرے گا- بارک اوباما نے کہاتھاکہ ایران کے خلاف اسرائیل اپنے دفاع کا حق رکھتاہے – فوجی تجزیہ نگار کے مطابق ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف اکیلا رہ جانا اسرائیل کے لیے خطرناک ہے – ایران کے خلاف تنازعہ میں واشنگٹن کو شامل کرنا چاہیے اور ایک بین الاقوامی اتحاد وجود میں لانا چاہیے –
 
یہی اہم سبب ہے کہ جس کے باعث سابق اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون ایران کے خلاف کچھ ایکشن نہ لے سکے- عمیر ربابورت نے اسرائیلی حکام کو متنبہ کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف حملہ گزشتہ سال ستمبر میں شام کی جوہری تنصیبات پر کئے گئے حملے کی طرح نہیں ہوسکتاکیونکہ ایران کی طرف سے شدید ردعمل ہوگا- وہ حزب اللہ اور حماس کے ذریعے لبنان اور غزہ سے اسرائیل کے خلاف میزائل حملے کرے گا-

عبرانی اخبار ’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے ذکر کیا ہے کہ نیویارک ٹائمز کی طرف سے ایران پر حملے کی اسرائیلی تیاریوں کا اس وقت انکشاف صرف اتفاق نہیں ہے- یہ ایسے وقت میں انکشاف کیا گیا ہے جب یورپی یونین ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے تہران کو مراعات دینے پر غور کررہی ہے- دوسری جانب ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے آپشن کو امریکہ چھپا رہا ہے اس کی کوشش ہے کہ موجودہ مرحلے میں اسرائیلی پاگل ہی ایران کے خلاف حملہ کریں- اسرائیل نے بڑی طاقتوں اور علاقے کے کئی ممالک سے مل کر مشترکہ فضائی مشقیں کی ہیں-

اسرائیل نے جب ماضی میں شام اور عراق کی جوھری تنصیبات تباہ کی تھیں تو اس وقت خاموشی سے کارروائی کی گئی لیکن اب ایران کو مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں- تہران یہ سوچ کر مطمئن ہوسکتا ہے جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں لیکن اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ نے اس کے برعکس نتیجہ نکالا ہے- اس کے مطابق اسرائیلی فوجی قیادت کو معلوم ہے کہ وقت ختم ہوتا جارہا ہے وہ اس بات کا بھی ادراک رکھتے ہیں کہ اسرائیل ایران کی تمام جوھری تنصیبات تباہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا اس کے باوجود وہ ان تنصیبات کے ایک حصے کو تباہ کرنے اور ایرانی جوہری پروگرام کو آگے بڑھنے میں رکاوٹ ڈالنے کو اہم کامیابی تصور کرتے ہیں- ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے کی کامیابی کا دارومدار اسرائیلی معلومات پر ہے-
 
ایٹمی تنصیبات کی عمارت کی دیوار کی موٹائی، تعمیراتی مواد کیا استعمال کیا گیا ہے اور ان عمارتوں کی گہرائی کے متعلق معلومات بڑی اہمیت کی حامل ہیں- ان معلومات کے مطابق اسرائیلی فضائیہ اسلحہ استعمال کرسکتی ہے- اسرائیل ایران کے خلاف حملے کے لیے آبدوزوں کا بھی استعمال کرسکتا ہے جو ایران کے قریبی علاقے میں جاکر ظاہر ہوں لیکن وہ نسبتاً کم میزائل لے جانے کی اہلیت رکھتی ہیں-

اخبار نے 2006ء میں تیار کی گئی امریکی رپورٹ کے حوالے سے نقل کیا ہے جس میں ایران کے خلاف اسرائیلی حملے کے متوقع راستے بیان کیے گئے ہیں- رپورٹ کے مطابق ایران پر اسرائیل کے حملے کے تین راستے ہوسکتے ہیں- سب سے کم اور مرکزی راستہ اردن اور عراق کی فضاء سے ہوتے ہوئے ایران پر حملہ، دوسرا راستہ ترکی اور شام کی فضاء سے ہوتے ہوئے ایران پر حملہ ہے جبکہ تیسرا سمندر کے اوپر سے گزرنا ہے-

مختصر لنک:

کاپی