کئی برسوں سے ایسا ہو رہاہے کہ گستاپو طرز کی اسرائیلی فوج قوت کا بے جا استعمال کرتی ہے ان میں ٹینک ، جنگی جہاز ، بھاری توپخانہ اور دیگر مہلک ہتھیار شامل ہیں اور ان کے استعمال سے غزہ کی پٹی میں آبادی پر موت ، دہشت اور تشدد کی بارش کی جاتی رہی ہے- جس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں لوگ شہید ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے-
تازہ ترین اقدام کے ذریعے ستم رسیدہ فلسطینیو ں کو کچھ وقت کے لیے حقیقتاۥ رام مل جائے گا، اگرچہ فلسطینیوں کو اس کا یقین نہیں ہے- جمعرات کے روز سے نافذ العمل معاہدے کے ذریعے امکان ہے کہ غزہ کی پٹی کے پندرہ لاکھ لوگوں کا گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جو محاصرہ جاری ہے ختم ہوجائے گا- 1943 ء میں نازیوں نے وارسا کا جس طرح گھیراؤ کیاتھا غزہ کا محاصرہ بالکل اس جیسا ہے-
امید کی جاتی ہے کہ جبر و تشدد کے طویل دورکے بعد غزہ کو بحال ہونے کا موقع ملے گا اور غزہ کے شہری جو عرصہ دراز سے مسکراہٹوں سے محروم ہیں، ان کے چہرے پر مسکراہٹ جائے گی – حماس کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حماس، القاعدہ قسم کی تنظیم نہیں ہے اگرچہ اسرائیلی اور صہیونی اسی پر اصرار کرتے ہیں، اسرائیل نے اسی الزام کے بہانے فلسطینیوں پر بے حد و حساب حملے جاری و ساری رکھے-
حماس نے ہمیشہ مطالبہ کیا کہ غزہ کی پٹی میں تشدد کا خاتمہ کیا جانا چاہیے اور دونوں اطراف معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے سے باز رہیں لیکن یہ مطالبہ حماس سے نہیں اسرائیل سے تھا جس نے ایسی کسی اپیل پر توجہ نہ دی اور مسلسل معصوم فلسطینی شہریوں کو نشانہ بناتارہا، اسرائیل ، مغربی ذرائع ابلاغ کو مخاطب کرتے ہوئے ہمیشہ یہی کہتارہاکہ اس کی افواج نہتے فلسطینیوں پر حملہ نہیں کرسکتی- حقیقت یہ ہے کہ سینکڑوں فلسطینی بچوں،عورتوں اور شہریوں کو اسرائیل نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا، اسرائیل معصوم فلسطینی شہریوں کو نشانہ بھی بناتارہاہے اور دنیا کے سامنے جھوٹ بھی بولتا رہا-
اسرائیل کے ظلم و ستم اور اس کی کارروائیوں کا نشانہ ہر روز عام لوگ بنے، اس کے ستم کا اس کے ظلم کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتاہے- حماس نے اس عرصے میں جس عزم ، جرات اور استحکام کا مظاہرہ کیا، وہ قابل تعریف ہے- حماس کے کارکنان اور غزہ کے لوگوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور تمام تر تشدد برداشت کرنے کے باوجود فلسطینیوں کی قربانیاں رنگ لائیں- فتح کی قیادت کی نکھیں بھی کھل جانا چاہئیں کہ خر کار کامیابی حق و انصاف ہی کی ہوتی ہے – اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ امن و انصاف کو نفرت ، دہشت، نسلی امتیاز پر کامیابی یہ وہ نسلی امتیاز ہے کہ جو واشنگٹن، تل ابیب اور چند دیگر دارالحکومتوں میں جاری و ساری ہے-
غزہ کے لوگ جو امریکہ ،اسرائیل کی نسل پرستی اور نسلی امتیاز کا نشانہ بنے، اس سلسلے میں فاتح رہے، اٹھارہ ماہ تک تشدد برداشت کرنے کے بعد آخر کار وہ فاتح رہے تل ابیب کے جنگ سے محبت کر نے والوں اور واشنگٹن کے نیوکونز جو حماس کو جڑ بنیاد سے ختم کردینا چاہتے تھے، وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینی اٹھارہ ماہ بعد دوبارہ سانس لینے کے قابل ہوگئے ہیں- فتح کے اندر ایسے اسرائیل نواز لوگ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کو شکست سے دوچار کردے اور غزہ کی پٹی کو فتح کی قیادت کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کردے –
ہم اس موقعے پر ایسے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنی صفوں سے اسرائیل کے دوستوں اور صہیونیوں کے ایجنٹوں کو نکال باہر کریں -یہ خوش فہمی ہوگی کہ اگر یہ تصور کیا جائے کہ اسرائیل معاہدے پر پابند رہے گا اور فلسطینیوں کے قتل عام کو ترک کردے گا- اسرائیل نے بار بار کے تجربات کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ناقابل اعتماد ہے اور کسی بھی وقت حملہ کرسکتاہے-
حماس کو چاہیے کہ دیگر جماعتوں کے عسکری بازوئوں تک یہ بات واضح کردے کہ غزہ کے لوگوں کا تحفظ اس گروپ یا اس گروپ سے منسلک دوسرے مزاحمتی گروپ معاہدے پر عمل درآمد سے دنیا کو یہ پیغام پہنچائیں کہ حماس ذمہ دار تنظیم ہے جس پر اعتماد کیا جانا چاہیے جس سے آئندہ بھی معاملات کئے جاسکتے ہیں- اس موقعے پر اس کی خصوصی اہمیت ہے کیونکہ اسرائیل کے پنجوں سے فلسطین کی آزادی کی منزل قریب آگئی ہے-