غذائی اجناس،ایندھن ، علاج معالجے کے آلات اور ادویہ غزہ میں داخل نہیں ہونے دی جار ہیں- ایندھن کی فراہمی روک دی گئی جس کے باعث زندگی کا پہیہ جام ہوگیا- اس وقت غزہ میں حادثہ رونما ہوچکاہے – آئیے غزہ کے 15لاکھ فلسطینیوں پر ناکہ بندی کے پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں-
علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی اجازت نہ دئیے جانے اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث مریضوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا- غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے کوشاں یورپی مہم کے مطابق رواں سال 2008ء کے شروع سے اب تک 116فلسطینی مریض ناکہ بندی کا شکار ہوچکے ہیں – جن میں شیر خوار بچے اور ضعیف افراد بھی شامل ہیں- انہیں علاج کے لیے غزہ سے باہر نہیں جانے دیا گیا اور غزہ میں علاج کی سہولتیں اور دوائیوں کی عدم دستیابی کے باعث وہ ہلاک ہوگئے-
ناکہ بندی کی شدت کے بعد جون 2007ء سے اب تک 192مریض ہلاک ہوچکے ہیں- جبکہ صرف اپریل کے مہینے میں 32مریض علاج کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جا ملے – اس وقت ڈیڑھ ہزار ایسے مریض ہیں جنہیں علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی ضرورت ہے – لیکن ناکہ بندی کے باعث وہ ہستہ ہستہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں-
ناکہ بندی کے باعث غزہ کی معیشت تباہ ہوگئی ہے- فلسطینی چیمبر ف کامرس کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق فلسطینی معیشت کو ناکہ بندی کے باعث ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے- جس میں براہ راست نقصانات 36کروڑ ڈالرہیں، حصاربندی جاری رہنے کی صورت میں غزہ میں ہر چیز تباہ ہوجائے گی اور اس کے تمام شہری غربت اور بے روز گاری کے قافلوں کے راہی ہوں گے-
ناکہ بندی کے باعث معاشی نقصانات کے تمام شعبہ ہائے زندگی پر اثرات مرتب ہوئے ہیں- بالخصوص تعلیمی شعبہ بہت متاثر ہوا ہے – اسکولوں کی فیس ،کتابوں اور کاپیوں کی خریداری کے لیے رقم نہ ہونے کے باعث فلسطینی بچوں کا مستقبل تاریک ہورہا ہے –
غزہ کی 97فیصد فیکٹریاں بند پڑی ہیں جبکہ باقی تین فیصد بھی جزوی طور پر کام کررہی ہیں- گتے اور گارمنٹس غزہ کی اہم صنعتیں ہیں، جس سے اسے لاکھوں ڈالر حاصل ہوتے تھے لیکن وہ مکمل طور پربند پڑی ہیں- غزہ کے ایک لاکھ چالیس ہزار مزدور بے روز گار بیٹھے ہیں- ریلیف ایجنسی اور بعض عرب ممالک غزہ میں تعمیرات کا کام کرتی تھیں لیکن تعمیراتی سامان نہ ہونے کے باعث کام بندپڑا ہے –
70فیصد سے زائد شہری بے روزگار ہیں اور 80فیصد افراد خط غربت سے نیچے کی سطح پر زندگی گزا ررہے ہیں – 11لاکھ فلسطینی اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی ’’اونرو‘‘غذا ئی عالمی تنظیم اور اسلامی رفاہی اداروں کی امداد پر زندگی کا پہیہ چلا رہے ہیں- 60فیصد بچے غذاکی کمی کے باعث بیماریوں کا شکار ہیں- 70فیصد افراد کو ہفتے میں 2دو دفعہ پانی پہنچتاہے جس کا دورانیہ صرف ٹھ گھنٹے ہوتاہے – غذا میں روزانہ آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے بعض اوقات دورانیہ 16گھنٹوں تگ پہنچ جاتا ہے-
ناکہ بندی کے باعث قدرتی ماحول کو شدید نقصان ہو رہاہے- ایندھن میں کمی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث گندہ پانی صاف کرنے والے ٹیوب ویل بند ہوگئے ہیں اور گٹروں کا پانی براہ راست سمندر میں گررہاہے جس سے ساحل پر آلودگی پھیل رہی ہے – انسانی حقوق کے مرکز المیزان کے مطابق اس آلودگی سے شہریوں کی صحت کو خطرہ ہے – گندے پانی کے سمندر میں داخلے ہونے سے ساحل کاماحول لودہ ہونے کے ساتھ ساتھ مچھلیوں کی زندگی کو بھی خطرہ ہے کیونکہ گندے پانی میں کیڑے مکوڑوں کو مارنے والی ادویہ اور دیگر کیمیائی مواد بھی شامل ہوتے ہیں-
ناکہ بندی کے باعث سینکڑوں اسیران کی اپنے اہل خانہ سے ملاقاتیں بند ہوگئی ہیں- ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے بیان میں کہاگیا ہے کہ ناکہ بندی کے باعث 900اسیر اپنے پیاروں کی ملاقات سے محروم ہوگئے ہیں- گزشتہ ایک برس سے انہوں نے اپنے بہن بھائی ، ماں ،باپ اور کسی رشتہ دار سے ملاقات نہیں کی – اسرائیلی جیلوں میں 11700فلسطینی قید ہیں –
ناکہ بندی کے باعث سینکڑوں فلسطینی طلبہ بیرون ملک یونیورسٹیوں میں تعلیم کے حصول سے محروم ہوگئے ہیں- اسرائیلی حکام نے غزہ کی سرحدیں بند کرکے سینکڑوں طلبہ کے بیرون ملک تعلیم کے امکانات کو ختم کردیا ہے – رپورٹ کے مطابق سات سو طلبہ اپنی تعلیم کی تکمیل کے لیے غزہ سے باہر نہ جاسکے-
یورپی مہم نے غزہ کے خلاف ناکہ بندی کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف بہت بڑا طمانچہ قرار دیا ہے –
برسلز سے یورپی مہم کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ناکہ بندی اب تک سینکڑوں فلسطینیوں کو کھا چکی ہے – 192مریض علاج میسر نہ ہونے اور دوائیوں کی کمی کے باعث جاں بحق ہوچکے ہیں- ناکہ بندی شہریوں کی زندگی کے خلاف جنگ ہے جو انسانی حقوق کے معاہدوں پر ایک دھبہ ہے – اقوام متحدہ نے غزہ کے خلاف ناکہ بندی کو سانحہ قرار دیا ہے- اقوام متحدہ میں ریلیف ایجنسی ’’اونروا‘‘کی ہائی کمشنر کارین ابوزید نے کہاہے کہ غزہ پر اسرائیلی ناکہ بندی فلسطینیوں کے لیے نیا سانحہ ہے – اقوام متحدہ کے نمائندے دیز مونڈ تو نے ناکہ بندی کو انسانی برداشت سے باہر قرار دیا ہے –