یروسر نے اسرائیلی یورنیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے اس کردار کو سراسرفراموش کردیا جو فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی تسلط کو جائز قرار دینے کے لیے کیا جار ہاہے تاہم انہوں نے برطانیہ کی یونیورسٹی اور کالج یونین کی جانب سے اسرائیلی یونیورسٹیوں سے تعلقات توڑنے کے مطالبے پر شدید تنقید کی ‘ انہوں نے ’’یک ریاستی حل ‘‘ کے مخالفین کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کہاکہ اس ذریعے سے اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی کوشش کی جار ہی ہے –
کیا اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کے لوگ یا دنیا کے لوگ اس سے واقف نہیں ہیں کہ اسرائیل کیا ہے اور کیا کررہاہے اور اس کا فلسطینیوں کے ساتھ رویہ کیا ہے – انہیں اس حقیقت کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیلی مظالم اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنا کہ ذرائع ابلاغ میں ذکر کیا جاتاہے ‘ انہیں یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے اسرائیل نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ انسانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے – اسرائیل نے تعلیمی میدان میں جو ظلم ‘ جبر ‘ تشدد اور زیادتیاں کی ہیں ‘ آئیے اس کا جائزہ لیں –
اسرائیل نے ہزاروں فلسطینی ‘ کالج کے طلبہ کو اس کی اجازت نہیں دی ہے کہ وہ یونیورسٹی کی تعلیم یا اعلی تعلیم حاصل کریں اور ان پر بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کررکھی ہے – غزہ کی پٹی کے طالب علموں کو اس کی اجازت بھی نہیں دی گئی ہے کہ وہ مغربی کنارے کے کالجوں میں جاکر تعلیم حاصل کریں- اسرائیل کا دعوی ہے کہ یہ ظالمانہ اقدامات ’سیکورٹی وجوہات ‘‘کی وجہ سے کئے جار ہے ہیں تاہم ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ فلسطینی طالب علموں‘ اساتذہ اور فلسطینی تعلیمی اداروں کے خلاف اسرائیل کی خاموش جنگ کا مقصد یہ ہے تاکہ فلسطینی معاشرہ ‘ ہمیشہ ہمیشہ اسرائیلی معاشرے سے تعلیمی طور پر پیچھے رہے – گزشتہ ہفتے اسرائیل نے کئی طالب علموں کو امریکہ میں اپنے تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا لیکن وہ طالب علم تھے ‘ جنہوں نے فل برائٹ سکالر شپ حاصل کیاتھا- اس حوالے سے ایک اسرائیلی حکومتی اہلکار نے کہا’’ہم مزید عرب طالب علموں کو امریکہ جا کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت کیوں دیں ‘کیا اس لیے کہ وہ اسرائیل پر حملے کریں-
اسرائیل آخر کس بات سے خوفزدہ ہے کہ وہ فلسطینی طالب علموں کو امریکہ جاکر تعلیم حاصل نہیں کرنے دینا چاہتا‘ کیا وجہ ہے کہ اسرائیل کے جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعرے اسی معاملے میں صفر ثابت ہوتے ہیں- سچی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی ریاست کا انسان حقوق شہری آزادیوں اور انصاف کے معاملے میں ریکارڈ صاف ہے تو اسے کسی قسم کے خوف کا شکار نہیں ہوناچاہیے تاہم یہ بھی واضح ہے کہ اسرائیل سرسے پاؤں تک نسل پرستی اور اپنی ہی غلاظت میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کو چھپانے کے لیے مزید جھوٹ بولتا چلا جا رہاہے اور یروسربھی یہی کام کررہاہے-
اصل وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی دہشت گرد ریاست سے خوفزدہ ہے کہ دنیا کے لوگ اس کے جابرانہ ‘قاہرانہ کردار سے روشناس ہوجائیں گے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل نے روا رکھا ہوا ہے- اسرائیل نے سینکڑوں فلسطینی طلبہ ‘پروفیسر وں اور ماہرین تعلیم کو جنوبی اسرائیل کے صحرائے نقب کے کیمپوں خصوصاً کیت زیوت نظر بندی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ اسرائیلی قابض حکومت کی غیر مستعددانہ مخالف کرتے ہیں‘ ان قیدیوں کی اکثریت کو جیل میں رکھا جاتاہے کئی بار انہیں قید تنہائی میں بھی رکھاگیا‘ نہ اس پر مقدمہ چلایا گیا نہ عدالت میں پیش کیاگیا-
چند برس پہلے کی بات ہے کہ کت زیوت کیمپ میں نظربندی کی مدتگزارنے والے مصطفی شہسوار نے راقم کو اطلاع دی کہ اس نے کئی بار یہودی ملٹری ’’جج ‘‘ کو درخواست دی کہ مجھے بتایا جائے کہ مجھے کیوں قید میں رکھاگیاہے تاکہ جب وہ رہائی پا جائے تو دوبارہ یہ جرم نہ کرے – شہسوار ‘ جوالخلیل یونیورسٹی میں لیکچراررہا ‘ اسے جج کی طرف کوئی جواب موصول نہیں ہوا- شہسوار نے مجھے بتایا کہ فوجی جج نے مجھے یہ بتانے کی زحمت نہیں کہ مجھے جیل میں کیو رکھاگیاہے کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی آقا ہیں اور غیر یہودی غلام ہیں اور ’’منتخب قوم ‘‘ پر کوئی اخلاقی یا قانونی پابندی نہیں ہے کہ وہ بتائیں کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ بدسلوکی کیوں کررہے ہیں –
شہسوار کو کت زیوت جیل میں چوتھا سال ہے اسے یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ایک ایسی ریاست اس پر تشدد کیوں کررہی ہے جس کادعوی ہے کہ وہ ساری دنیا کی قوموں کا نور ہے اور مشرق وسطی کی واحد جمہوریت ہے ؟شہسوار کا معاملہ ‘ اپنی طرز کا واحد معاملہ نہیں ہے- وہ اور اس جیسے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کا جرم صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کے خیالات اور نظریات اشک نازی حکمران یہودیوں کو پسند نہیں ہیں ایسا ہی معاملہ الخلیل یونیورسٹی میں تقابل ادیان کے پروفیسر عزام صلحب کا ہے جو آٹھ سالوں سے جیل میں ہے ‘ ان پر یہ غیر واضح الزام ہے کہ ’’وہ اسرائیل اور یہودی لوگوں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے ‘‘اوپر جو مثالیں پیش کی گئی ہیں کیا وہ قانون اور جمہوریت کے مطابق ہیں یا اس کے خلاف ہیں‘ اگر بے بس اور بے بس لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال جائز ہے تو پھر نازی جرمنی کو ان اقدامات پر قابل الزام ٹھہرایا جاتاہے جو اس نے کئی برس پہلے کئے تھے-
تعلیم سے تعلق رکھنے والوں پر تشدد کرنے اور ان کے حقوق سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے درجنوں صحافیوں کو بھی بیرون فلسطین کے سفر سے روک رکھاہے تاکہ وہ باہر کی دنیا کو اسرائیلی مظالم اور اسرائیلی جرائم سے آگاہ نہ کردیں- گزشتہ ہفتے مجھے اسرائیلی حکومت نے برلن میں ہونے والی میڈیا کانفرنس میں شرکت کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا اگرچہ مجھے کبھی گرفتار بھی نہیں کیا گیا اور بطور صحافی کسی غلط کاروائی پر زیر حراست بھی نہیں لیا گیا-
ان حالات میں یروسر کو سوچناچاہیے کہ وہ برطانیہ اور بقیہ دنیا کو کیا بتا رہے ہیں ؟ انہیں بتانا چاہیے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کیا دلیل ہے – کیا برطانیہ کے لوگوں کو لندن‘ مانچسٹر اور لیوریول کی سڑکوں پر جلوس نکالنا چاہیے اور اسرائیل نے غزہ کی پٹی جس طرح محاصرہ کررکھاہے اور اس کی ناکہ بندی کررکھی ہے اور جس طرح مغربی کنارے میں سکول کے بچوں پر گولیاں چلائی جار ہی ہیں‘ اس پر اسرائیل کی تعریف کرنی چاہیے- کیا برطانیہ سے لوگوں کو فلسطینیوں کے پانی پر قبضہ کرنے کی حوصلہ افزائی کے طور پر اور فلسطینیوں کے پانی میں گستایوں طرز پر زہرملا نے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا چاہئیں – جو طوانی کے نزدیک فلسطینی چرواہوں پر تشدد کرتے رتے ہیں اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھروں‘ کھیتوں اور باغوں پر قبضہ کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں-
کیا برطانیہ کے لوگوں کو انگلینڈ ‘ سکاٹ لینڈ‘ ویلز اور آئیر لینڈ میں اسی پر جلوس نکالنا چاہیے کہ اسرائیل نے الخلیل میں یتیم خانوں اور سکولوں کو بند کردیا اور ہزاروں یتیم بچوں کو سڑکوں کے بیچ میں لا کر پٹخ دیا – یتیم خانوں کو تو نازی یہودیوں نے بھی نشانہ نہیں بنایاتھا ‘ آخر کس طرح دنیا کے لوگوں اور برطانیہ کے لوگوں سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ بچوں کی خوراک چھیننے والے فوجیوں کے بارے میں یہ گمان کرلیں کہ یہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف اقدام ہے- حقیقی طور پر اگر کوئی ریاست ایسے اقدامات کرتی ہے تو اس کی حیثیت نازی ریاست جیسی ہوجاتی ہے اور دنیا بھر میں اس پر تنقید ہونی چاہیے ‘ اگر اسرائیل پر تنقید نہ کی جائے تو یہ غیر اخلاقی قدم ہوگا کیونکہ بدترین ظلم وجبریہ تنقید نہ کرنا اس کا حصہ بننے کے مترادف ہے –
کیا ان سے امید کی جار ہی ہے کہ وہ ’’صرف یہودی بادی ‘‘ کے حل کو قبول کرتے ہوئے قومی خودکشی کے فیصلے کو تسلیم کرلیں ‘ وہ کسی طرح ان حالات میں رہ سکتے ہیں کہ جب ان کے اردگرد ’’صرف یہودیوں کے لیے رہائش ‘‘‘’’صرف یہودیوں کے لیے راستے ‘‘ متنازعہ اسرائیلی دیوار نازی طرز کی رکاوٹیں ‘ بندشیں اور پابندیاں ہوں‘ ان کی نگرانی کے لیے نگران ٹاورہوں ‘ ان پر یہودی فوجی تعینات ہوں جو یہودی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں –
یروسر نے یک ریاستی حل کے مطالبے پر احتجاج کیا ہے جہاں یہودی اور عرب واحد شہری ریاست کے اندر رہیں اوردریائے اردن سے بحیرہ روم تک کہ فلسطینی علاقے میں یکساں حقوق حاصل کریں – انہوں نے اس تجویز کو یہودی ریاست کے خاتمے کے مترادف قرار دیا ہے لیکن وہ اس حقیقت کو بھول چکے ہیں کہ یہ فلسطینی نہیں تھے اسرائیلی تھا جس نے دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور مغربی کنارے خصوصاً عرب مشرقی بیت المقدس میں صرف یہودی کالونیوں کی تعمیر کی ‘ ان حالات میں فلسطینیوں کو کیا کرنا چاہیے ‘ ان کی سرزمین پر ایسی بستیاں تعمیر کی جا رہی ہیں جن پر لکھا جا رہاہے کہ یہ بستیاں یہ علاقے صرف یہودیوں کے لیے ہیں –