پنج شنبه 01/می/2025

مشرق وسطی کے تنازعے میں بنی فلم ہالی وڈ میں نمائش کے لئے پیش

اتوار 8-جون-2008

ہالی وڈ کے معروف کامیڈین ایڈم سینڈلر اس ہفتے ایک مرتبہ پھر بڑی سکرین پر نمودار ہو رہے ہیں- اسرائیل فلسطین تنازعے کے تناظر میں بنی ان کی نئی فلم’’یو ڈونٹ مس ود دی زوہان‘‘(YOU DON’TMESS WITH THE ZOHAN) ہالی وڈ میں نمائش کے لئے پیش کی جارہی ہے-

اس کامیڈی فلم کی کہانی ایک اسرائیلی فوجی اور ایک فلسطینی شخص کے گرد گھومتی ہے جنہوں نے نیویارک سٹی پہنچ کر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد بنا لیا ہے- لیکن سوال یہ ہے اس پر کوئی شخص کیا ہنس سکتا ہے – اس کا جواب فلم کے ڈائریکٹر ڈینس ڈوگان دیتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں تنازعے کاشکار لوگ نیویارک میں ایک اچھے ہمسائے کی حیثیت سے رہ رہے ہیں- فرق یہ ہے کہ غزہ میں ان کی پس میں دشمنی ہے لیکن بروکلین میں وہ ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے -وہ ایک دوسرے سے متحارب گروہ کے بجائے اس سے بالا تر سلوک کرتے ہیں-

فلم کا مرکزی کردار زوہان ایک دہشت گرد مخالف ایجنٹ ہے جو اسرائیل میں ہیرو کا درجہ رکھتا ہے لیکن وہ اپنے گھر میں تنازعے کی وجہ سے اکتا چکاہے- وہ اپنے آزادی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے جعلی موت مرتا اور نیویارک میں ایک ہیئر سٹائیلسٹ بن جاتا ہے- زوہان پرامن طور پر رہنے والے یہودیوں اور فلسطینیوں میں گھل مل جاتا ہے – پھر ایک فلسطینی بدلہ لینے کے لئے بگ ایپل پر آتا ہے- لیکن جب بکھرے خون کے منظر کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے تو وہ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد بنا لیتے ہیں-

فلم میں جان ٹرٹرو نے فانطم کے نام سے فلسطینی ولن کا کردار ادا کیا ہے-زوہان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ فانطم بھی مزید لڑائی نہیں لڑنا چاہتا- ٹرٹرو نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ "اگر زوہان ایک یہودی جیمز بانڈ ہے تو فانطم ایک عرب ایمی نم (EMINEM) ہے- اس کے دانت سونے کے ہیں، وہ ہمیشہ شیڈز پہنتا اور اس کی اپنی مچن ٹچن (MUCHENTUCHEN) ریستورانوں کی چین ہے-

کہانی کے پلاٹ کا آئیڈیا اکتالیس سالہ سینڈلر کا ہے اور سکرپٹ رائٹرز رابرٹ سیگل اورجوڈ پاٹو نے اس کی معاونت کی ہے- رابرٹ سمگل کا کہنا ہے کہ "اس فلم کی خاص بات وہ بہت سے مناظر ہیں جن میں عرب اور اسرائیلی افراد اکٹھے کام کرتے نظر آئیں گے- فلم میں ایساجان بوجھ کر نہیں کیا گیا بلکہ ان سب کو اکٹھے سیٹ پر بلایا گیا تھا – ان میں سے بعض اداکاروں کو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ وہ اس سے پہلے تمام اسرائیلیوں یا تمام عربوں سے نفرت کرتے تھے لیکن اس فلم میں کام کرنا ان کے لئے زندگی میں تبدیلی کا تجربہ تھا۔

 

مختصر لنک:

کاپی