پنج شنبه 01/می/2025

یہودی پروڈیوسر اسرائیلی مظالم دیکھ کر اشکبار

ہفتہ 7-جون-2008

امریکی اور عرب اپنے بین الثقافتی تصادم پر کیسے قابو پاسکتے ہیں ،اس سلسلے میں ‘‘ آن دی روڈ ان امریکا ‘‘ نامی ٹی وی شو امریکا میں بہت جلد کیبل ٹیلی ویژن چینل ’’ سن ڈانس‘‘ پر پیش کیا جارہا ہے-

شو واشنگٹن میں قائم ایک غیر منافع بخش گروپ لیلینہ پروڈکشنز کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے،جس کا مقصد ٹیلی ویژن کو دونوں خطوں کے درمیان بہتر افہام وتفہیم کے فروغ کے لئے بروئے کار لانا ہے-امریکا کے مختلف شہروں میں فلمائے گئے اس شو میں بیس برس کی عمر کے چار فیشن ابیل عرب نوجوانوں نے کا کام کیا ہے- شو میں زیادہ تر امریکا کی تاریخ، اس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور عرب ثقافتوں کے درمیان اختلافات کو موضوع بحث بنا یاگیا ہے-

بارہ اقساط پرمشتمل یہ سیریز جب 2007 میں العربیہ کی مادرعرب براڈکاسٹر کمپنی ایم سی بی پر دکھائی گئی تھی تو کویت،عراق،سعودی عرب اور الجزائر جیسے ملکوں سے تعلق رکھنے والے اس کے ناظرین کی تعداد پیتالیس لاکھ تک جا پہنچی تھی، اس کے چاروں سٹارز تین مرد اور ایک خاتون کا انتخاب چار سو سے زیادہ افراد کے آڈیشن کے بعد کیا گیا-

اس کی کاسٹ میں شامل فلسطینی لڑکی لارا ابو سیفن نے 2006 کے موسم گرما میں لبنان پر اسرائیل کے حملے کے بعد بیروت چھوڑاتھا تب وہ اپنے پیچھے رہ جانے والے خاندان کے افراد اور دوستوں کے بارے میں تشویش کا شکار تھی-‘‘ آن دی روڈ ان امریکا ‘‘ کے لئے ساٹھ دن کے سفر کے بعد وہ بیروت لوٹی تواس کی ماں کا اپارٹمنٹ اور وہ باغ جس میں وہ کھیلا کرتی تھی، سب کچھ کھنڈر بن چکے تھے، اسرائیلی حملے کی تباہ کاریوں کا یہ منظر دیکھ کر ایک امریکی یہودی پروڈیوسر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے-

ابو سیفن کا کہنا ہے شو کے دوران اس کے لئے سب سے حیران کن بات ان امریکیوں سے ملاقات تھی جو فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے اور وہ برسر زمین حقائق سے پوری طرح آگاہ تھے-

مصری فنکار علی عمرو کا کہنا ہے کہ شو میں عرب دنیا کو تیس کروڑ امریکیوں کے خیالات میں تنوع کا اس سے مختلف اندازنظرآئے گا جو وہ اپنے گھروں میں دیکھتے ہیں- اسے توقع ہے کہ امریکی بھی عرب نوجوانوں کے ایک مختلف گروپ کو دیکھیں گے جو ہرگز پوٹینشل دہشت گرد نہیں ہیں- شو کی تمام بارہ اقساط میں کم و بیش اسی تاثر کو اجاگرکرنے کی کوشش کی گئی ہے-

 

مختصر لنک:

کاپی