خلیجی ممالک کے دورہ کے موقع پر متحدہ عرب امارات کے اخبارات کے مدیران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ ترکی کی زیر سرپرستی شروع کردہ بالواسطہ بات چیت کی آئندہ مرحلے میں امریکہ کی سرپرستی لازمی ہوگی- اخبار الخلیج کی اطلاع کے مطابق بشار الاسد نے کہا کہ موجودہ مرحلہ پر ہم اسرائیل کے ساتھ بات چیت میں کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں- ایجنڈے میں شامل موضوع تمام مقبوضہ اراضیات کی واپسی کا ہے- شام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ترکی کی وساطت سے تیقن دیا ہے کہ وہ امن کے عوض گولان کی پہاڑیاں شام کو واپس دینے تیار رہے گا-
یہ بات چیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے- آئندہ مراحل میں بین الاقوامی بالخصوص امریکی سرپرستی کی ضرورت ہوگی- امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کو شام اسرائیل بات چیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے- البتہ وہ (امریکہ) دہشت گردی کو شام کی تائید پر تنقید کرتا ہے- یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اسرائیل نے 1981ء میں گولان کے علاقے کا الحاق کرلیا تھا- بین الاقوامی برادری نے اس اقدام کی مذمت کی تھی- صدر شام نے اظہار خیال جاری رکھتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا کہ ان کا ملک نیو کلیئر اسلحے کا خواہاں نہیں ہے- البتہ وہ پرامن مقاصد کے لیے مجموعی عرب پراکیجٹ کے ذریعے جوہری توانائی کے حصول کا خواہاں ہے-
اخبار ’’گلف نیوز‘‘ کے مطابق انہوں نے کہا کہ امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ شام کے اس مرکز کے بارے میں تحقیقات کرلیتا جس کے بارے میں شبہ تھا کہ وہاں کوئی خفیہ نیو کلیئر پلانٹ ہے- گزشتہ ستمبر میں اسرائیل نے ایک فضائی حملے کے ذریعے اس مرکز کو تباہ کردیا تھا-
صدر شام نے کہا کہ اس حملے سے پہلے ہی امریکہ کو اس مرکز (فیلسیٹی) کے بارے میں تحقیقات کرلینی چاہیے تھیں- اقوام متحدہ کی نیوکلیئر نگران ایجنسی کے ذریعے معائنہ کیوں نہیں کروایا گیا- (اسی دوران انٹرنیشنل اٹامک انرجی کے ڈائریکٹر محمد البرادی نے کہا ہے کہ اس ایجنسی کی ایک ٹیم آئندہ 22 تا 24 جون شام کا دورہ کرے گی اور مشتبہ ری ایکٹر مرکز کے بارے میں تحقیقات کرے گی)-