چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینیوں کے لیے قائم کردہ اسرائیلی ’’باڑہ خانہ ‘‘

پیر 2-جون-2008

مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب میں اسرائیل کا نازی جرمنی سے موازنہ کرتاہوں تو اس سے کئی لوگ ناراض ہوجاتے ہیں- لیکن یہ بالکل حقیقت ہے کہ جب اسرائیل نازی جرمنی کی طرح سوچتا، اس کی طرح سلوک کرتا اور اس کی طرح کردار ادا کرتا ہے تو اسرائیل اس کا حقدار بن جاتا ہے کہ اس کا موازنہ نازی جرمنی سے کیا جائے- جنگ عظیم دوئم سے پہلے اور اس کے دوران جو کچھ نازی جرمنی نے کیا، اسرائیل وہی کچھ آج کررہاہے – فلسطینیوں کے خلاف جو لوگ گزشتہ ساٹھ برسوں کی اسرائیلی کارروائیوں سے آگاہ ہیں – ان کے لیے یہ سب کچھ نیا نہ ہوگا ، نہ ہی مشرق وسطی کے لوگوں کو نیا محسوس ہوگا-

غزہ کی پٹی میں جو خون بہایا جا رہاہے اس کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں اور اسرائیل ، غزہ کے پندرہ لاکھ انسانوں کو مزید خون میں نہلانے کے درپے ہے- جمعہ ،30 مئی کو فوجیوں نے شمال غزہ کی پٹی میں مظاہرین پر گولی چلا دی جس سے سات لوگ زخمی اور معذور ہوگئے – مظاہرین اسرائیل کا گھیراؤ کرنے نہیں جا رہے تھے نہ ہی ان سے اسرائیلی فوجیوں کی زندگی کو خطرہ لاحق تھا- اسرائیلی فوجیوں نے کسی خوف کے بغیر معصوم لوگوں پو گولیاں چلائیں وہ پہلے ہی یہ عہدہ رکھتے ہیں کہ غیر یہودی انسان نہیں ہوتے – کسی زمانے میں نازی دیکھا کرتے تھے کہ یہودیوں کو پکڑ ا جا رہاہے ، زنداں خانوں میں ڈالا جا رہاہے اور ان کو ہلاک کیا جا رہا ہے ، اب یہی سلوک اسرائیلی فلسطینیوں کے ساتھ کررہے ہیں اور باقی یہودی یہ منظر دیکھ رہے ہیں-

یہودیت ایک عظیم مذہب ہے جس کی تعلیمات میں شامل ہے کہ ’’تم قتل نہیں کروگے ‘‘ ،’’تم جھوٹ نہ بولو گے ‘‘ ، ’’تم چوری نہ کروگے ‘‘اسی یہودیت کے پیرو کار یہودیوں کو حق حاصل نہیں ہے کہ دنیا والوں کو نازی ازم کے بارے میں لیکچر دیں اور اسے برا قرار دیں – قتل عام اور حلال ہولوکاسٹ کوئی چیز نہیں ہے لیکن جب یہودی نازیوں کی طرح اقدامات کرتے ہیں تو انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ نازیوں پر تنقید کریں – جمعہ کے روز اے ریز چیک پوائنٹ پر ہونے والا واقعہ اس واقعے کی نسبت تو کچھ بھی نہیں ہے کہ جو کچھ غزہ میں گزشتہ کئی ماہ سے ہو رہا ہے ،انسانی حقوق کی تنظیموں خصوصاً بیت سلم کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے سال 2000ء سے اب تک سینکڑوں لوگوں کو شہید اور ہزاروں معصوم لوگوں کو زخمی کرڈالا ہے – اسرائیلی فوج نے فلسطینی خاندانوں کو اس حالت میں موت کے گھاٹ اتارا کہ وہ غزہ کی پٹی کے نزدیک پکنک منا رہے تھے ، اسرائیلی فوج نے فلسطینی بچوں کو اس حالت میں شہید کیاکہ وہ اپنے گھروں اور اپنے بستروں میں محو خواب تھے – اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر گھروں پر بم گرائے اور کئی خاندانوں کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا کہ اس خاندان کا ایک فرد ایسے خیالات رکھتاتھاکہ جو یہودیوں کو پسند نہیں ہیں- اسرائیل نے یہ جرم ایک بار نہیں کیا ، دوبارہ نہیں کیا ، سینکڑوں بار کیا ہے –

نہ ہی اسرائیل کی فوج ، نہ ہی اسرائیل کے سیاستدانوں نے اپنے جرائم پر معافی طلب کی اور جب کبھی ایسا کیا بھی گیا تو اس کامقصد صرف یہ تھاکہ ذرائع ابلاغ کے سامنے جھوٹے اعلانات کئے جائیں اور اپنے جرائم جاری رکھے جائیں – اسرائیل جھوٹ پر چلنے والا ایک ملک ہے جتنی بار یہ سانس لیتاہے اتنی بار یہ جھوٹ بولتاہے ان کادعوی ہے کہ غزہ کی پٹی سے یہودی آبادیوں پر جو راکٹ پھینکے جاتے ہیں ہم ان کا جواب دیتے ہیں جبکہ صورت حال اس کے برعکس ہے –

تاہم یہ واضح ہے کہ یہ اسرائیل ہے کہ جو اصرار کررہا ہے کہ جنگ بندی نہیں ہونی چاہیے اور اسرائیل کو یہ حق ملتا رہناچاہیے کہ وہ محاصرے کرے ، شہروں کی ناکہ بندی کرے اور معصوم لوگوں کا قتل عام کرے اور اسی طرح یہودی ریاست برقرار رکھ سکے جس طرح نازی جرمنی کو ظلم و ستم کا حق حاصل نہیں تھا اسی طرح یہودیوں کو بھی ظلم و ستم کا حق حاصل نہیں ہے – یہ کہاں کاانصاف ہے کہ ایک قوم کے جرائم کی سزا دوسری قوم کو دی جائے – تاہم یہ درست ہے کہ نازی جرمنی کے جرائم کا گراف جس قدر بلند گیاتھا ، یہودی مظالم کا گراف اس قدر اونچا نہیں گیا- اخلاقیات اور صہیونیت ایک دوسرے کے متضاد اور متصادم ہیں ،نازیوں نے جس طرح وارسا میں انسانی باڑے قائم کئے تھے اسرائیل نے غزہ کو انسانی باڑہ خانے میں تبدیل کردیا ہے- اگر عالمی برادری کی طرف سے خاموشی کا سلسلہ جاری و ساری رہے تو بالکل ممکن ہے کہ اسرائیل غزہ کی کہانی کا باب بند بھی کردے –
 
اسرائیلی ربیوں ، علماء ، سیاستدانوں اور دانشوروں کی طرف سے روزانہ ایسے بیانات آتے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے اندر نازیت کی روح دوڑ رہی ہے – یہی وجہ ہے کہ اسرائیل آئے روز کوشش کرتارہتاہے کہ دنیا کو نئے نئے فتوے دیتا رہے -ماضی میں امریکہ کے ڈرسے اسرائیل ، فلسطینیوں کو وسیع پیمانے پر نکال باہر کرنے سے باز رہتاتھا لیکن یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب امریکہ کی پالیسی قانون و انصاف پر مبنی ہوا کرتی تھی – امریکہ میں با اثرطبقات موجود ہیں ، یہ ایونیجیلیکل بھی ہیں اور یہودی بھی ہیں جواسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام پر کوئی پریشانی یا دکھ محسوس نہ کریں گے-

ایلی ویزل تو یہ کہہ چکاہے کہ جو دنیا نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام پر خاموش رہی تھی اسے کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف آواز بلند کرے – اس کا مطلب یہ ہے کہ ساٹھ سال تک اسرائیل کے مظالم سہنے والے فلسطینیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ ان کی نسل ہی ختم ہوجائے – کیا ایسا منظر بھی دیکھنے کو ملے گا کہ سینکڑوں ،ہزاروں ، لاکھوں یورپی باشندے سڑکوں پر نکلیں اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں اور ان پر عائد پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کریں-

مختصر لنک:

کاپی