فلسطینی جہاد کا علم کبھی اتنا بلند نہیں ہوا جتنا آج بلند ہے- مسلمان حکمرانوں کا مؤقف عوامی خواہشات کے مطابق ہیں- وہ نام نہاد امن معاہدوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں- غزہ کو روزانہ جس مقدار میں تیل کی ضرورت ہے وہ عرب ممالک کی تیل کی روز انہ پیداوار کا لاکھواں حصہ بھی نہیں بنتا- ترقی یافتہ قومیں ہمیشہ اپنے شہریوں کو آزادی رائے کا حق دیتی ہیں- ان خیالات کا اظہار اخوان المسلمون کے نومنتخب سربراہ ڈاکٹر ھمام سعید نے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- انٹرویو کا متن زائرین کی دلچسپی کے پیش خدمت ہے-
سب سے پہلے تو آپ کے خیال میں اسلامی ممالک عوامی اور سرکاری سطح پر غزہ کے خلاف اسرائیل کی ناکہ بندی کے خاتمے کےلیے کس قدر دلچسپی رکھتے ہیں؟–
جواب: عوامی سطح پر تو گہری دلچسپی ہے- عوام اس مسئلے سے مکمل ہمدردی رکھتے ہیں- اردنی عوام مسئلہ فلسطین کو اپنا مسئلہ گردانتے ہیں- وہ یہودی ظلم کے شامنے فلسطینی عوام کے ثابت قدم رہنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں- جو مجاہد یہودیوں کے سامنے صف اول میں کھڑے ہیں ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں- ہم ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں- اس بات کا اندازہ ناکہ بندی کے خلاف بڑے بڑے جلوسوں سے لگا سکتے ہیں-
البتہ سرکاری سطح پر اسلامی حکومتیں قیام امن کے لیے نام نہاد معاہدوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں- وہ ان معاہدوں کو قوانین تصور کرتی ہیں جس سے وہ دستبردار نہیں ہونا چاہتی اور نہ ہی دستبردار ہونے کے بارے میں سوچ سکتی ہیں- اسلامی حکومتوں کا مؤقف عوام کے مؤقف کے خلاف ہے- حکمرانوں کا مؤقف عوامی خواہشات، توقعات اور افکار کا ترجمان نہیں-
ناکہ بندی کے حوالے سے آپ کا مستقبل میں کیا پروگرام ہے؟–
جواب: ہم حکومت سے پالیسی میں تبدیلی لانے کا مطالبہ جاری رکھیں گے- عوامی سطح پر بھی ہمارا کردار ہوگا- ہم فلسطینی بھائیوں کی بالخصوص مالی طور پر مدد جاری رکھیں گے اور ایسی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں گے جس سے مسئلہ فلسطین اردنی عوام کے سینوں میں زندہ رہے- ہم اسلام پسند جماعتوں سے مل کر متحد مؤقف اختیار کرتے ہوئے حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ فلسطین کی مدد اور ناکہ بندی کے خاتمے کا مؤقف اختیار کرے- ہم عرب حکومتوں کو بالخصوص ناکہ بندی کے خاتمے کی کوششوں کے حوالے سے خطوط لکھیں گے اور تجاویز پیش کریں گے- اگر مسلمان حکمران اپنی پالسیوں میں تبدیل لے آئیں تو ناکہ بندی کا خاتمہ ممکن ہے-
آج مزاحمت کو فضول کہا جارہا ہے، آپ اس جدوجہد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں جو ناکہ بندی کے خلاف کی جارہی ہیں؟–
جواب: کیا آپ اس جدوجہد کو نظر انداز کرسکتے ہیں جس کی مثال مسلمانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی- میرے خیال میں فلسطینی جہاد اس طرح کبھی نہیں چمکا ہوگا جس طرح آج چمکا ہے اور جہاد کا علم اس طرح بلند نہیں ہوا ہوگا جس طرح آج بلند ہے- یہ فتح مبین اور ان مجاہدین کی نصرت کی نشانیاں ہیں جن میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے مجاہدین بھی شامل ہیں-
بعض لوگوں نے حماس کو ناکہ بندی کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے بالخصوص حماس کے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنا ناکہ بندی کی وجہ سے آپ کا کیا خیال ہے؟–
جواب: انہوں نے ناکہ بندی کا ذمہ دار حماس کو ٹھہرایا ہے کیونکہ حماس جہادی تحریک ہے جبکہ وہ سرتسلیم خم کرنے والے لوگ ہیں- حماس یہودی بربریت کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے اور وہ یہودی سازشوں کے لیے دروازے کھولنے والے ہیں- حماس نے علاقے میں امریکی سازش کے سامنے بند باندھا ہے اور وہ امریکہ کے آلہ کار ہیں- فطری بات ہے وہ ناکہ بندی کی ذمہ داری حماس کی طرف منسوب کریں گے- وہ حصار بندی کو اس جہاد اور شہداء کا نتیجہ قرار دیں گے-
جو فلسطینی عوام نے اصولوں کے لیے پیش کیے ہیں-غزہ پر حصار بندی کی دستاویز یہودی ریاست نے تیار کی ہے لیکن عرب تنظیموں نے اس کی مدد کی کہ وہ ناکہ بندی میں شریک ہیں- آج جس مقدار میں غزہ کو تیل کی ضرورت ہے وہ عرب ممالک کی تیل کی پیداوار کا لاکھواں حصہ بھی نہیں بنتا- حکمران ظالم ہیں اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار ہیں- ہر حادثہ ایک بچے، خاتون یا بوڑھے کی جان لے رہا ہے- ان لوگوں کا خون عربوں کی گردنوں پر ہے- آخرت سے پہلے دنیا میں بھی اس خون کا حساب لیا جائے گا- امت مسلمہ حکمرانوں کی پالیسیوں پر خاموش نہیں بیٹھے گی- عوام بھوک سے مررہے ہیں اور حکمران دولت جمع کرنے میں مصروف ہیں-
فلسطین اندرونی بحران سے دوچار ہے آپ کے خیال میں اس بحران بالخصوص حماس اور فتح کے درمیان کشیدہ تعلقات سے نکلنے کا کیا طریقہ ہے؟–
جواب: فتح اور حماس کے درمیان اختلافات پی ایل او یا فلسطینی اتھارٹی کے امریکی حکم کے تابع ہونے سے پیدا ہوئے ہیں- ہم جانتے ہیں کہ غزہ میں امریکی جنرل کیتھ ڈائٹن نے جو کچھ کیا اور اب مغربی کنارے میں جو کچھ وہ کررہا ہے حماس اور اس کے جہادی منصوبے کو ختم کرنے کی سازش ہے- اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے فوری مداخلت کی ضرورت ہے-
دوسری جانب حماس نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا- وہ بین الاقوامی سازش کی بنیاد پر مذاکرات نہیں چاہتی بلکہ وہ فلسطینی عوام کے مفادات کی بنیاد پر مذاکرات کی خواہاں ہے-فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے مذاکرات میں فلسطینی اصولوں سے دستبرداری اختیار کررہی ہے- بڑے تعجب کی بات ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے مذاکرات چھوٹے چھوٹے امور کے متعلق شروع کیے اور اہم امور بالخصوص بیت المقدس فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے مسئلے کو لٹکا دیا گیا-
وہ فلسطینی عوام کے ساتھ اس عورت کی طرح معاملہ کرنا چاہتے ہیں جو اپنے بیٹوں کے لیے کنکریوں کی ہانڈی پکائی ہے کہ اس سے مزیدار کھانا تیار ہوگا- جب کہ ہانڈی میں کنکریوں کے سوا کچھ نہیں- وہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے لیے تفریح مہیا کریں اور یہود باقی زمین پر بھی قبضہ کرلیں- حماس کا مؤقف صرف اخوان المسلمون کے ہاں قابل قدر نہیں ہے بلکہ پوری امت مسلمہ حماس کے مؤقف کو سراہتی ہے-
سانحہ قیام اسرائیل کے ساٹھ سال مکمل ہونے کے حوالے سے آپ فلسطینی عوام کو کیا پیغام دیں گے؟
وہ حکمران جو ہمیں سرگرمیوں سے روکتے ہیں ان میں زیادہ تر ناقص العقل ہیں، کیونکہ ترقی یافتہ اور مہذب قومیں ہمیشہ اپنے شہریوں کو آزادئ رائے دیتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں کیونکہ جب جذبات دبائے جاتے ہیں تو وہ آتش فشاں بن کر پھٹتے ہیں- فلسطینیوں کو مقبوضہ فلسطین میں سانحہ قیام اسرائیل کی یاد تازہ کرنے کی آزادی ہے وہ اسرائیلی پولیس کے زیر سایہ سانحہ قیام اسرائیل کے حوالے سے سرگرمیاں کرتے ہیں تو کیا ہمارے حکمران یہودیوں سے یہودیوں کے زیادہ وفادار ہیں-
کب تک یہ عجیب و غریب سوچ باقی رہے گی جو عوام کے حقوق کے سطح کے برابر نہیں ہے- کیا ان حکمرانوں کو علم نہیں کہ روکنے سے عوامی جذبات زیادہ مشتعل ہوں گے- اگر وہ نکالنے کی اجازت دے دیں تو ہم جلوس نکالیں اور عوام تک اپنا پیغام پہنچائیں گے اور بات ختم ہو جائے گی لیکن وہ ہمیں جلوس نکالنے سے روکتے ہیں تو ہم عوام کو بتاتے ہیں کہ ہمیں جلوس نکالنے سے منع کیا گیا ہے تو اس سے عوام میں زیادہ غم و غصہ پیدا ہوتا ہے- حکمرانوں کو ان پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا-