چهارشنبه 30/آوریل/2025

اوسلو معاہدے کی طرز پرمعاہدے پھر عروج پر

اتوار 25-مئی-2008

جنوبی فلسطین میں تین روزہ اقتصادی کانفرنس میں اس چیز کا جائزہ لیا گیا کہ فلسطینی اقتصادیات کو بہتر بنانے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کس طرح اضافہ کیا جائے – کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے راہنما محمود عباس نے سینکڑوں عرب اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا خیر مقدم کیا اور کہاکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقتصادی خوش حالی سے سیاسی عمل تیز ہوگا اور اسرائیلی تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے فلسطینیوں کے استحکام میں قوت پیدا ہوگی-

سال 2006ء میں فلسطینی انتخابات جیتنے والی جماعت حماس سے محمو دعباس نے اپیل کی کہ وہ فلسطین کی قانونی حیثیت تسلیم کرلیں اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں، محمود عباس نے کہاکہ مشرقی بیت المقدس کا فلسطینیوں سے تعلق ہے اور اسرائیل کو جلد یا بدیر یہ شہر چھوڑنا پڑے گا-فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے کہاکہ قاہرہ سے حوصلہ افزاخبریں مل رہی ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے بارے میں بات چیت اگلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے –

قبل ازیں بیت لحم کے انٹرنیشنل ہوٹل میں پانچ سرمایہ کار پہنچے ، ان میں سے اکثر اردن اور ایلن بائی برج کے ذریعے غزہ پہنچے تھے – امید کی جار ہی ہے کہ اس کانفرنس میں سات اسرائیلی سرمایہ کار بھی شرکت کررہے ہیں- رابطہ آفس کے سربراہ حسین الشیخ کہنا ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ نے کئی ایک مدعوئین کو انٹری ویز ا دینے سے انکار کردیا – انہوں نے کہاکہ غزہ تک پہنچنے کے راستے ابھی تک اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے افسران اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں – کانفرنس کے جنرل منیجر حسن ابو لبدہ نے کہاکہ فلسطینیوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کریں ، ہم اپنی ضرورت کی اشیاء کا نوے فیصد اسرائیل سے درآمد کرتے ہیں ، اسرئیل ہمارے وطن کو کنٹرول کرتاہے اور ہماری زندگیوں پر اس کے اثرات ہیں- ابو لبدہ نے ان سوالات کا جواب دینے سے اعتراز کیا کہ آیا فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیلی سرمایہ کاروں کو اس کی اجازت دی ہے کہ فلسطینی معیشت میں سرمایہ کاری کریں اور آیا اس سے آزادی کی جدجہد پر اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں ہوں گے-

فلسطینی حزب اختلاف نے کانفرنس کے منتظمین پر تنقید کی اور کہاکہ اس کانفرنس کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا خون اور ہماری جدوجہد فروخت کرکے تعلقات بحال کرلئے جائیں – نیشنل کمیٹی برائے بائیکاٹ اسرائیل (NCBI)کے مشترکہ پریس ریلیز میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ کانفرنس میں متنازعہ اسرئیلی دیوار ، رکاوٹوں ، نئی بستیوں کی تعمیر اور دیگر اہم مقامات کے بارے میں خاموشی اختیار کئے رکھی گئی اور کہاکہ اس کانفرنس کے ذریعے فلسطین کے اسرئیل پر انحصار میں اضافہ ہوجائے گا – پریس ریلیز میں مزید کہاگیا ہے کہ تجارتی اقدامات سے اسرائیلی معیشت مضبوط ہوگی- انہوں نے کہاکہ ایسی قومی کانفرنس کی ضرورت ہے کہ جس سے فلسطینیوں کی قوت میں اور استحکام میں اضافہ ہو اور وہ اسرائیل کا زیادہ سے زیادہ جرات مندی سے مقابلہ کرسکیں- ہماری آزادی حاصل کرسکیں اور اسرائیل سے ہمیں نجات دلا سکیں –

فلسطینی ماہرمعیشت عادل سمارہ نے کانفرنس پر تنقید کی اور کہاکہ اس کانفرنس کے ذریعے انہیں شکوک و شبہات کو دوبارہ جنم دیا جا رہاہے جو اوسلو معاہدے کے دور میں پیدا ہوئے تھے – انہوں نے کہاکہ اوسلو معاہدوں کے دنوں میں ہم سے کہا جار ہاتھاکہ غزہ کی پٹی ، مشرق وسطی کا سنگاپوربن جائے گا او رمغربی کنارہ استحکام اور معاشی خوشحالی کا مرکز بن جائے گا- اب یہ مغالطے دوبارہ دئیے جار ہے ہیں –
انہوں نے کہاکہ حقیقی طور پر غزہ ایک جیل بن چکا ہے اور مغربی کنارہ اسرائیل کے زیادہ گہرے تسلط میں جا چکاہے – سمارا نے فلسطینی اتھارٹی پر تنقید کی اور کہاکہ اس کے عہدیدار ان رقم سمیٹنے کے لئے قومی اہداف سے سودے بازی کرنے میں مصروف ہیں ، انہوں نے کہاکہ فلسطینی اتھارٹی دلالی کررہی ہے تاکہ عربوں کے اسرائیل سے تجارتی تعلقات بن جائیں –

انہوں نے کہاکہ یہ عالم عرب اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش فلسطینیوں کی قومی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے – سمارا نے فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم سلام فیاض کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہاکہ محمود عباس کی موجودگی کو کانفرنس کی کامیابی کی علامت قرار دیاگیا- انہوں نے کہاکہ تیسری جماعت کا ایک فلسطینی بچہ بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حق میں نہیں ہے – فلسطینی اقتصادی کونسل برائے تعمیر و ترقی (PICAAR)کے سربراہ محمد شطائے نے کہاکہ اسرائیلی قابض حکومت نے فلسطینی معیشت پر غیر معمولی دباؤ بڑھا دیا ہے –

انہوں نے مزید کہاکہ موجودہ حالات میں فلسطینی تجارت رشید لوگ اور سرمایہ کاربھی منافع سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں- شطائے نے اس کانفرنس کے حوالے سے کہاکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ باصلاحیت سرمایہ کارفلسطینی علاقوں میں سرمایہ کاری کرناچاہتے ہیں – انہوں نے فلسطینیوں کو درپیش مشکلات کاتذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ امریکی کہتے ہیں کہ فلسطین میں ہرچیز حسب معمول ہے حالانکہ فلسطین میں ہر چیز حسب معمول نہیں ہے –
انہوں نے کہاکہ باہر کے لوگوں کو آنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ فلسطین میں اس کاروبار کے مواقع کیا کیا ہیں ؟- شطائے نے کانفرنس کو اقتصادی رشوت قرار دینے سے انکار کردیا اور کہاکہ تاریکی ختم کرنے کے لئے موم بتی جلا دینا بھی اہمیت رکھتاہے –
 
چار ممالک کی کمیٹی کے نمائندے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کانفرنس میں خطاب کریں گے ، ان کی کوشش ہے کہ ایسا ایجنڈا سامنے لایا جائے جس کے ذریعے اہم مسائل مثلاً بیت المقدس ، یہودی آبادیاں ، فلسطینیوں کی واپسی وغیرہ پس منظر میں چلے جائیں – اسرائیلی وزیراعظم ایہوداولمرٹ بھی فلسطین کے ساتھ مذاکرات کے راستے میں کانفرنس کو اہم قدم سمجھتے ہیں –

پیریز کا خیال ہے کہ اقتصادی سہولیات کی دستیابی سے فلسطینیوں کی اسرائیل کے بارے میں رائے میں نرمی پیدا ہوجائے گی – فتح ،حماس اور دیگر فلسطینی جماعتیں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات نہیں کرتیں ،ان کا کہناہے کہ جب تک اسرائیل 1967ء کے مقبوضہ علاقے خالی نہیں کرتا اس سے بات چیت نہیں ہوسکتی-

مختصر لنک:

کاپی