یہ انٹرویو امریکی صدارتی امیدوار باراک اوباما کے خلاف انتخابی مہم میں استعمال ہونا شروع ہوا- رابرٹ مالی نے این بی سی کو انٹرویو میں استعفی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے باراک اوباما کی صدارتی مہم سے دستبردار ہونے کا فیصلہ برطانوی اخبار ٹائمز آف لندن سے انٹرویو کے بعد کیا، جس میں ان سے حماس سے تعلقات کے متعلق تحقیقات شروع کی گئیں-
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حماس کی محبت اور نفرت امریکی صدارتی امیدواروں کے لیے انتخابی مہم کا اہم حصہ ہے- جس قدر حماس سے نفرت اور اسرائیل سے محبت کا اظہار کیا جائے گا وائٹ ہاؤس میں پہنچنا آسان ہو جائے گا-
داخلی اور خارجی سطح پر باراک اوباما، ہیلری کلنٹن اور جان میکین کی پالیسیوں میں اختلافات کے باوجود سب اسرائیل کی حمایت اور مدد پر متفق ہیں- اسرائیل کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے- لہذا اس میں کوئی قابل تعجب بات نہیں ہے کہ انتخابی مہم میں حماس کو نشانہ بنایا جائے- میکین اور اوباما اپنی انتخابی مہم میں امریکی ووٹروں کو یقین دلانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ حماس کو ختم کرنے کے لیے وہ زیادہ مناسب ہیں- مبصرین کے مطابق جان میکین انتخابی مہم کی ابتداء ہی سے حماس کی مذمت کررہے ہیں اور اس کو اسرائیل کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں-
ان کے خیالات میں حماس فلسطینی ریاست کے قیام میں اتنی زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی جتنی وہ اسرائیل کے وجود کے خاتمے میں دلچسپی رکھتی ہے- حماس اور ایران مشرق وسطی میں قیام امن نہیں چاہتے- وہ یہودی ریاست کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے خواہاں ہیں- واشنگٹن کو حماس کو دنیا سے الگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں اور حزب اللہ اور حماس کے میزائل حملوں سے اسرائیل کو محفوظ رکھنا ہوگا- دمشق اور تہران پر حماس اور حزب اللہ کی مدد کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے-
شام اور ایران کو ان جماعتوں کی مدد نہیں کرنی چاہیے جو واشنگٹن اور تل ابیب کے خیال میں دہشت گردی میں جان میکین نے مزید کہا کہ میرے خیال میں امریکی عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ میں حماس کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوں گا- اگر ووٹروں کا خیال ہے کہ حماس کے خاتمے کے لیے باراک اوباما زیادہ مناسب ہیں تو وہ ان کو منتخب کریں-
جان میکین کے ان بیانات کے بعد باراک اوباما کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ اعلان کریں کہ ان کی حماس کی دشمنی کے حوالے سے پالیسی جان میکین کی پالیسی کی طرح ہے- انہوں نے جان میکین پر الزام لگایا کہ وہ اس طرح کے بیانات دے کر امریکی عوام میں ان کی ساخت خراب کررہے ہیں-جب امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے مشرق وسطی کا دورہ کیا اور وہ تمام امریکی اور اسرائیلی دباؤ کے اوجود حماس سے ملنے پر مصر تھے تو جان میکین نے باراک اوباما پر پر الزام نہیں لگایا کہ اوباما نے جمی کارٹر کے حماس سے ملنے کے اقدام کی مذمت نہیں کی بلکہ یہ الزام لگایا کہ باراک اوباما نے کارٹر کے اقدام کی اس شدت سے مذمت نہیں کی جس شدت سے مذمت کرنی چاہیے- جبکہ اوباما کا بیان ہے کہ امریکہ کی اسرائیل سے دوستی ناقابل تسخیر ہے- باراک اوباما نے صدر منتخب ہونے کی صورت میں اسرائیل کی حفاظت کی ضمانت دی ہے- انہوں نے حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس سے مذاکرات کو مسترد کیا ہے-
باراک اوباما نے کہا کہ حماس حکومت نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم ہے اور اس سے مذاکرات ممکن نہیں ہیں- اسرائیل کا یہودی ریاست کی بناء پر وجود بہت ضروری ہے-باراک اوباما اس الزام سے تو اپنے آپ کو صاف کرنا چاہتے ہیں کہ حماس سے ان کے رابطے ہیں، خواہ اس الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے-