مشرق وسطی میں اسرائیل نے دریافت انسانی تاریخ کی طویل خونریز جنگ لڑنے ، لاکھوں انسانوں کو ہلاک ، زخمی اور بے گھر کرنے ، ان کی زمینوں پر بزور قوت قبضہ کرنے ، گھروں ، بازاروں ، اسکولوں کو بلڈوز کرنے ، ہزاروں نہتے فلسطینی نوجوانوں کو جیلوں میں بند کرنے اور فلسطینی بستیوں کے فوجی محاصرہ کرکے ان کی زندگی کو جہنم نانے کے ساٹھ برس پورے کرتے ہوئے ایک بار پھر امن کانفرنس اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا راگ الاپ رہاہے –
مشرق وسطی کی جاری سیاسی صورت حال شام اور لبنان کے خلاف اسرائیلی حکومت کی نئی پروپیگنڈہ مہم ، اسرائیلی فوجوں کی شام کی سرحدوں پر جنگی مشقیں اور غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائیوں میں اضافے سے خطے میں ایک نئی جنگ کاآغاز کے خدشات کو بڑھاوا مل رہاہے – اسرائیل نے شام اور لبنان کی سرحدوں پر فوجی نقل و حمل میں اضافہ کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے اپنے عوام کو شام اور لبنان سے خطرہ ہے کا پروپیگنڈہ تیز تر کرتا جارہاہے – شام کے میزائلوں اور حزب اللہ کو ایران سے جدید ہتھیاروں کی فراہمی کا زور و شور سے واویلا مچایا جا رہاہے – اسرائیلی رہنمائوں نے اپنی عوام سمیت امریکی اور یورپی عوام کوبھی یہ باور کرانے کے لئے کوششیں تیز کردی ہیں کہ حماس اور حزب اللہ ایران اور شام کی مدد سے خطے کے امن کو تباہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں – جس کا ایک مقصد امن کی جاری کوششوں کو سبوتاژ کرناہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ اسرائیل نے امن مذاکرات کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی میں محاصرہ سخت کردیاتھا- جس سے اس علاقے کے فلسطینی باشندوں میں شاید بے چینی پائی جاتی ہے اور جاری صورت حال سے کوئی بھی المناک واقعہ سامنے آسکتاہے –
حماس کے رہنمائوں نے صدر محمودعباس اور ان کے ساتھیوں کی حکمت عملی پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ امریکہ اور اسرئیل خطے میں امن قائم کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام میں قطعی مخلص نہیں ہیں ، اس سے قبل بھی بار بار امن معاہدوں کا ڈھونگ رچایا گیا اور نہتے فلسطینی عوام پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا رہا- اگر سنجیدگی سے اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو حماس کے رہنمائوں کے شکوک و شبہات غلط نظر نہیں آتے – اسرائیل کی دوعملی ، ہٹ دھرمی اور کھلی جارحیت کے ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے فی الفورکسی امن معاہدے کی کامیابی ممکن نظر نہیں آتی جبکہ حال ہی میں امریکہ اور اسرائیل کے بیچ ہونے والے دس سالہ دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ ہر سال اسرائیل کو تین ارب ڈالر مالیت کے جدید ہتھیارفراہم کرنے کا پابند رہے گا- اس کے علاوہ امریکہ ، برطانیہ اور ہا لینڈ کی معروف اسلحہ سا ز کمپنیوں کے اشتراک ، جدید طیارے ، راکٹ میزائل ، لیزر اور کیمیائی ہتھیار تیار کئے جا رہے ہیں جبکہ اسرائیل کی جدید صنعتی قوت تین ہزار سے زائد جدید صنعتوں پر مشتمل ہے جس میں جدید اسلحہ سازی کے کارخانوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا ہے-
اسرائیل سالانہ پانچ ارب ڈالر سے زائد مالیت کا اسلحہ فروخت کرتاہے اور گزشتہ سال بھارت نے بھی دو ارب ڈالر کا اسلحہ درآمد کیاتھا – اس حوالے سے دنیا کے تمام امن پسند اور غیر جانبدار حلقے اس امر پر متفق ہیں کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کا وجود اور اس کے مہلک ہتھیاروں کے انبار نہ صرف اس خطے کے لئے زبردست خطرہ ہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے بھی خطرہ ہیں – مگر اسرائیلی رہنماء پوری ڈھٹائی سے ان حقائق کو مسترد کرتے ہوئے الٹے اس خطے کے پر امن ممالک کو دھمکاتے اور ان سے اسرائیل کو خطرہ ہے کا راگ الاپتے رہتے ہیں-
اس طرح اسرائیل نہ صرف مغربی ممالک سے اسلحہ اور امداد بٹورتاہے بلکہ ان ممالک کے عوامی حلقوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنے کی سعی کرتاہے جبکہ یہ حیرت انگیز حقیقت بھی قابل غور ہے کہ دنیا کی ساڑھے چھ ارب افراد پر مشتمل آبادی میں تمام یہودیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہے – 1917ء میں بالفور اعلامیہ کے وقت دنیا میں یہودیوں کی کل تعداد 38لاکھ کے قریب تھی اور اس وقت یورپ کے بعد ارجنٹائن میں یہودی زیادہ آباد تھے اس لئے آسٹریا کے یہودی دانشور وں نے بالفور اعلامیہ سے پچیس برس قبل یہودی ریاست کے قیام کا تصور پیش کرتے ہوئے ارجنٹائن کا انتخاب کیا تھا- بعد ازاں ایک یہودی اسکالر نے مشرقی افریقہ کے ملک کینیا میں یہودی ریاست کے قیام کانقشہ پیش کیا، مگر اسی اثناء میں برطانیہ کی طرف سے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے اعلان نے یورپی اقوام کو چونکا دیا تھا-
برطانیہ نے 1918ء سے 1948ء تک فلسطینی عوام پر انتہائی ظلم ڈھائے ، مقامی آبادیوں کے بنیادی اور انسانی حقوق سلب کرکے انہیں اپنے گھروں اور اپنی زمینوں سے بے دخل کیا- یورپی ممالک میں آبادیہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانے کا سلسلہ دراز کیا- 1948ء میں برطانیہ نے یہ خطہ اسرائیل کے حوالے کردیا اور یہودیوں نے اپنی باقاعدہ حکومت کا اعلان کیا- اس کے فوری بعد سب سے پہلے امریکہ اور اس کے بعد روس نے اس کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا- یہودی ریاست کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی پورے خطے میں خونریز ہنگامے پھوٹ پڑے مگر امریکہ اور برطانیہ نے نوزائیدہ یہودی ریاست کی حفاظت کے بہانے بدترین طاقت کا استعمال کرکے ہزاروں فلسطینی اور عرب باشندوں کو ہلاک اور زخمی کردیا جبکہ بارہ لاکھ سے زائد فلسطینی باشندے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے –
تب سے آج تک اسرائیلی حکومت اپنے مغربی حلیف حلقوں کی حوصلہ افزائی ، مالی امداد اور جدید اسلحہ کی فراہمی کے سبب پورے خطے میں کھلی جارحیت کی مرتکب ہوتی چلی آر ہی ہے – اسرائیلی رہنمائوں نے عالمی برادری کے ہر احتجاج ، امن معاہدوں ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور امن پسند حقوں کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے نہتے فلسطینی اور عرب باشندوں پر ظلم و بربریت کے سلسلے جاری رکھے – گزرے 60برسوں میں اسرائیل نے پورے خطے کو جنگی مصائب ، تباہی اور بد امنی کے سوا کچھ نہیں دیا- اسرئیل کی اس کھلی جارحیت ، ڈھٹائی اور جنونیت کے دو اسباب ہیں ،ایک یہ کہ مشرق وسطی میں امریکہ ، برطانیہ اور دیگر یورپی قوتوں کے مفادات کی نگرانی کرنا اور دوسرا یہ کہ عربوں کے خلاف یہودی باشندوں میں نفرت اور خوف کو ہوا دے کر اپنی قومی یکجہتی قائم رکھنا اور اپنی عوام کو اپنے ہر اقدام کی تائید پر مجبور کرنا-مگر 2006ء کے بعد سے اب تک کے مختلف جائزوں اور تجزیوں سے یہ بات آئی ہے کہ اسرائیل نصف سے زائد آبادی جنگ و جدل سے عاجز آچکی ہے اوروہ اپنے مستقبل کے بارے میں مایوسی اور غیر یقینی کیفیات کا شکار ہوتی جا رہی ہے-
خاص طور پر 20سے 40سال کی عمر کے افراد بڑی تعداد میں عدم تحفظ کے احساس اور اعصابی دبائو کا شکار ہوچکی ہے – اسرائیلی نوجوان لازمی فوجی تربیت سے فرار حاصل کرنے کے لئے سوجتن کرنے لگے ہیں- گزشتہ تین برسوں میں اسرائیل میں سرمایہ کار ی کا گراف نیچے آیا ہے- اسرائیلی خفیہ اداروں کے بعض جائزوں میں یہ انکشاف کیاگیا ہے کہ یورپی سائنس داں ، ٹیکنو کریٹس اور ماہرین اب اسرائیل ہجرت کرنے یایہاں طویل عرصے قیام کرنے میں محتاط رویوں کا اظہار کررہے ہیں اور اب خود کو یہاں غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں- اس کا سبب یہ بتایا جاتاہے کہ خطے میں حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور فلسطینی مزاحمت کاروں کا اسرائیلی فوجیوں کے خلاف ٹینک شکن میزائل اور رڈار پر نظر نہ آنے والے میزائل القسام 4کے تباہ کن حملے ہیں- فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنے حملوں سے اسرائیلی فوجیوں میں ہلچل مچا دی ہے –
سچ یہ ہے کہ حزب اللہ اور حماس کے پرعزم نوجوانوں نے اسرائیل کی ہائی ٹیک سوسائٹی کو ہلاکر رکھ دیا ہے – اس کے باوجو د اسرائیلی رہنما اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں کہ ریاست کی سلامتی اور ترقی میں صرف طاقت کا عنصر فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ عوامی یکجہتی ،عزم اور یقین بڑی اثاث ہیں- مشرق وسطی کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اس بدلتے منظر نامے کو پرتشویش قرار دیتے ہیں کہ اسرائیل اپنی سلامتی کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتاہے-
مشرق وسطی کی جاری سیاسی صورت حال شام اور لبنان کے خلاف اسرائیلی حکومت کی نئی پروپیگنڈہ مہم ، اسرائیلی فوجوں کی شام کی سرحدوں پر جنگی مشقیں اور غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائیوں میں اضافے سے خطے میں ایک نئی جنگ کاآغاز کے خدشات کو بڑھاوا مل رہاہے – اسرائیل نے شام اور لبنان کی سرحدوں پر فوجی نقل و حمل میں اضافہ کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے اپنے عوام کو شام اور لبنان سے خطرہ ہے کا پروپیگنڈہ تیز تر کرتا جارہاہے – شام کے میزائلوں اور حزب اللہ کو ایران سے جدید ہتھیاروں کی فراہمی کا زور و شور سے واویلا مچایا جا رہاہے – اسرائیلی رہنمائوں نے اپنی عوام سمیت امریکی اور یورپی عوام کوبھی یہ باور کرانے کے لئے کوششیں تیز کردی ہیں کہ حماس اور حزب اللہ ایران اور شام کی مدد سے خطے کے امن کو تباہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں – جس کا ایک مقصد امن کی جاری کوششوں کو سبوتاژ کرناہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ اسرائیل نے امن مذاکرات کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی میں محاصرہ سخت کردیاتھا- جس سے اس علاقے کے فلسطینی باشندوں میں شاید بے چینی پائی جاتی ہے اور جاری صورت حال سے کوئی بھی المناک واقعہ سامنے آسکتاہے –
حماس کے رہنمائوں نے صدر محمودعباس اور ان کے ساتھیوں کی حکمت عملی پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ امریکہ اور اسرئیل خطے میں امن قائم کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام میں قطعی مخلص نہیں ہیں ، اس سے قبل بھی بار بار امن معاہدوں کا ڈھونگ رچایا گیا اور نہتے فلسطینی عوام پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا رہا- اگر سنجیدگی سے اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو حماس کے رہنمائوں کے شکوک و شبہات غلط نظر نہیں آتے – اسرائیل کی دوعملی ، ہٹ دھرمی اور کھلی جارحیت کے ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے فی الفورکسی امن معاہدے کی کامیابی ممکن نظر نہیں آتی جبکہ حال ہی میں امریکہ اور اسرائیل کے بیچ ہونے والے دس سالہ دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ ہر سال اسرائیل کو تین ارب ڈالر مالیت کے جدید ہتھیارفراہم کرنے کا پابند رہے گا- اس کے علاوہ امریکہ ، برطانیہ اور ہا لینڈ کی معروف اسلحہ سا ز کمپنیوں کے اشتراک ، جدید طیارے ، راکٹ میزائل ، لیزر اور کیمیائی ہتھیار تیار کئے جا رہے ہیں جبکہ اسرائیل کی جدید صنعتی قوت تین ہزار سے زائد جدید صنعتوں پر مشتمل ہے جس میں جدید اسلحہ سازی کے کارخانوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا ہے-
اسرائیل سالانہ پانچ ارب ڈالر سے زائد مالیت کا اسلحہ فروخت کرتاہے اور گزشتہ سال بھارت نے بھی دو ارب ڈالر کا اسلحہ درآمد کیاتھا – اس حوالے سے دنیا کے تمام امن پسند اور غیر جانبدار حلقے اس امر پر متفق ہیں کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کا وجود اور اس کے مہلک ہتھیاروں کے انبار نہ صرف اس خطے کے لئے زبردست خطرہ ہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے بھی خطرہ ہیں – مگر اسرائیلی رہنماء پوری ڈھٹائی سے ان حقائق کو مسترد کرتے ہوئے الٹے اس خطے کے پر امن ممالک کو دھمکاتے اور ان سے اسرائیل کو خطرہ ہے کا راگ الاپتے رہتے ہیں-
اس طرح اسرائیل نہ صرف مغربی ممالک سے اسلحہ اور امداد بٹورتاہے بلکہ ان ممالک کے عوامی حلقوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنے کی سعی کرتاہے جبکہ یہ حیرت انگیز حقیقت بھی قابل غور ہے کہ دنیا کی ساڑھے چھ ارب افراد پر مشتمل آبادی میں تمام یہودیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہے – 1917ء میں بالفور اعلامیہ کے وقت دنیا میں یہودیوں کی کل تعداد 38لاکھ کے قریب تھی اور اس وقت یورپ کے بعد ارجنٹائن میں یہودی زیادہ آباد تھے اس لئے آسٹریا کے یہودی دانشور وں نے بالفور اعلامیہ سے پچیس برس قبل یہودی ریاست کے قیام کا تصور پیش کرتے ہوئے ارجنٹائن کا انتخاب کیا تھا- بعد ازاں ایک یہودی اسکالر نے مشرقی افریقہ کے ملک کینیا میں یہودی ریاست کے قیام کانقشہ پیش کیا، مگر اسی اثناء میں برطانیہ کی طرف سے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے اعلان نے یورپی اقوام کو چونکا دیا تھا-
برطانیہ نے 1918ء سے 1948ء تک فلسطینی عوام پر انتہائی ظلم ڈھائے ، مقامی آبادیوں کے بنیادی اور انسانی حقوق سلب کرکے انہیں اپنے گھروں اور اپنی زمینوں سے بے دخل کیا- یورپی ممالک میں آبادیہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانے کا سلسلہ دراز کیا- 1948ء میں برطانیہ نے یہ خطہ اسرائیل کے حوالے کردیا اور یہودیوں نے اپنی باقاعدہ حکومت کا اعلان کیا- اس کے فوری بعد سب سے پہلے امریکہ اور اس کے بعد روس نے اس کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا- یہودی ریاست کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی پورے خطے میں خونریز ہنگامے پھوٹ پڑے مگر امریکہ اور برطانیہ نے نوزائیدہ یہودی ریاست کی حفاظت کے بہانے بدترین طاقت کا استعمال کرکے ہزاروں فلسطینی اور عرب باشندوں کو ہلاک اور زخمی کردیا جبکہ بارہ لاکھ سے زائد فلسطینی باشندے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے –
تب سے آج تک اسرائیلی حکومت اپنے مغربی حلیف حلقوں کی حوصلہ افزائی ، مالی امداد اور جدید اسلحہ کی فراہمی کے سبب پورے خطے میں کھلی جارحیت کی مرتکب ہوتی چلی آر ہی ہے – اسرائیلی رہنمائوں نے عالمی برادری کے ہر احتجاج ، امن معاہدوں ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور امن پسند حقوں کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے نہتے فلسطینی اور عرب باشندوں پر ظلم و بربریت کے سلسلے جاری رکھے – گزرے 60برسوں میں اسرائیل نے پورے خطے کو جنگی مصائب ، تباہی اور بد امنی کے سوا کچھ نہیں دیا- اسرئیل کی اس کھلی جارحیت ، ڈھٹائی اور جنونیت کے دو اسباب ہیں ،ایک یہ کہ مشرق وسطی میں امریکہ ، برطانیہ اور دیگر یورپی قوتوں کے مفادات کی نگرانی کرنا اور دوسرا یہ کہ عربوں کے خلاف یہودی باشندوں میں نفرت اور خوف کو ہوا دے کر اپنی قومی یکجہتی قائم رکھنا اور اپنی عوام کو اپنے ہر اقدام کی تائید پر مجبور کرنا-مگر 2006ء کے بعد سے اب تک کے مختلف جائزوں اور تجزیوں سے یہ بات آئی ہے کہ اسرائیل نصف سے زائد آبادی جنگ و جدل سے عاجز آچکی ہے اوروہ اپنے مستقبل کے بارے میں مایوسی اور غیر یقینی کیفیات کا شکار ہوتی جا رہی ہے-
خاص طور پر 20سے 40سال کی عمر کے افراد بڑی تعداد میں عدم تحفظ کے احساس اور اعصابی دبائو کا شکار ہوچکی ہے – اسرائیلی نوجوان لازمی فوجی تربیت سے فرار حاصل کرنے کے لئے سوجتن کرنے لگے ہیں- گزشتہ تین برسوں میں اسرائیل میں سرمایہ کار ی کا گراف نیچے آیا ہے- اسرائیلی خفیہ اداروں کے بعض جائزوں میں یہ انکشاف کیاگیا ہے کہ یورپی سائنس داں ، ٹیکنو کریٹس اور ماہرین اب اسرائیل ہجرت کرنے یایہاں طویل عرصے قیام کرنے میں محتاط رویوں کا اظہار کررہے ہیں اور اب خود کو یہاں غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں- اس کا سبب یہ بتایا جاتاہے کہ خطے میں حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور فلسطینی مزاحمت کاروں کا اسرائیلی فوجیوں کے خلاف ٹینک شکن میزائل اور رڈار پر نظر نہ آنے والے میزائل القسام 4کے تباہ کن حملے ہیں- فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنے حملوں سے اسرائیلی فوجیوں میں ہلچل مچا دی ہے –
سچ یہ ہے کہ حزب اللہ اور حماس کے پرعزم نوجوانوں نے اسرائیل کی ہائی ٹیک سوسائٹی کو ہلاکر رکھ دیا ہے – اس کے باوجو د اسرائیلی رہنما اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں کہ ریاست کی سلامتی اور ترقی میں صرف طاقت کا عنصر فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ عوامی یکجہتی ،عزم اور یقین بڑی اثاث ہیں- مشرق وسطی کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اس بدلتے منظر نامے کو پرتشویش قرار دیتے ہیں کہ اسرائیل اپنی سلامتی کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتاہے-