صہیونی مملکت اسرائیل کی حکمت عملی پورے عالم عرب اور بالخصوص وہاں کے آبی وسائل کے سلسلے میں انتہائی خطرناک اور سنگین اساس و بنیاد پر قائم ہے- اس کا خیال ہے کہ آبی وسائل کو فوجی غلبہ اور کنٹرول کے ماتحت ہوناچاہیے- چنانچہ تاریخی دستاویز اور نو آبادیاتی روداد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ 1897ء میں جب صہیونی تحریک نے پہلی صہیونی کانفرنس منعقد کی تو اس میں یہ طے کیا کہ فلسطین کو یہودیوں کا وطن ہوناچاہیے اور عرب کے پانی کے سرچشمے اس سرزمین کی سرحدیں ہونی چاہیے-
1897ء میں صہیونی ڈھانچے کا وجود عمل میں آیا وہ اس وقت سے ایسے مختلف وسائل و ذرائع کی جستجو میں ہے جن کو استعمال کرکے وہ سرزمین عرب کے پانی کے سرچشموں پر قابض ہوجائے تاکہ صحرائے نقب کی تعمیر اور اس میں زراعت سے متعلق بلند توقعات کو پورا کیاجاسکے- جس کے لیے پانی کی ضرورت کلیدی حیثیت رکھتی ہے-
عربوں کے پانی پر قبضے کی اسرائیل کی شروع سے ہی کوشش رہی ہے وہاں کی سابق وزیر اعظم گولڈ ا مائیر نے کہاتھا کہ ایتھوپیا اور ترکی کے ساتھ باہمی معاہدہ یہی ہواکہ اس علاقے کی دو بڑی نہریں ’’نیل اور فرات ‘‘ عنقریب ہمارے قبضے میں آجائیں گی- جب سے پانی کے مسئلہ نے اہم اور بنیادی مسئلے کی حیثیت اختیار کی ہے صہیونی طاقتیں عرب کے پانی میں خصوصی دلچسپی لینے لگی ہیں اور صہیونی تحریک تو ابتداء ہی سے ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہے- چنانچہ یہ تحریک ’’سیکورٹی حدود ‘‘ کے مفہوم میں عرب علاقے کے پانی کے سرچشموں خاص طور سے نہر اردن ، نہر یرموک ، جبل شیخ کے پانی اور نہر لیطانی کو داخل قرار دیتی ہے- 1867ء میں فلسطین کے ایک تفتیشی ادارے نے پہلے صہیونی وفد کو منظم کیا جو متعدد انجینئروں پر مشتمل تھا تاکہ اس علاقہ میں آبی وسائل کا جائزہ لے اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں نہر اردن اور نہر لیطانی کے پانی کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیاتھا- 1899ء سے 1901ء کے درمیانی عرصہ میں صہیونیت اختیار کرنے والے ایک سوئیس انجینئر ابراہیم بوکٹ نے صہیونی تحریک کے موسس ہرتزل کے سامنے ایک پراجیکٹ پیش کیا جس میں یہ بات تھی کہ ’’اسرائیل کی مجوزہ سرزمین اپنی توانائی کے پراجیکٹ کو استعمال کرکے سرسبز و شاداب ہوسکتی ہے اس کی صورت یہ ہوگی کہ نہر اردن اور نہر لیطانی کے پانی کو ’’جلیل ‘‘ کی طرف لے آیا جائے تاکہ اسرائیل کی موجودہ سرزمین کوسیرا ب کیا جاسکے اور القدس اور دوسرے شہریوں میں آب رسانی کی جاسکے-
صہیونی تحریک کے موسس ہرتزل کا کہناہے کہ قدیم فلسطینی سرزمین ، جوہمارے لئے نئی ہے ، کے اصل بانی آبی پراجیکٹ کے انجینئر ہیں یہ بات ’’الارض القدیمہ الجدیدہ ‘‘ میں مذکور ہے اور تاریخی حقائق سے بھی اس کی توثیق ہوتی ہے چنانچہ صہیونی تحریک کے سربراہ آوردہ افراد نے شروع ہی سے یہ سمجھا ہے کہ فلسطین میں ان کی حکومت کے قیام کے لئے پانی کی بڑی اہمیت ہے لہذا جب 1903ء میں ہرتزل نے برطانوی لارڈ کرومر سے ملاقات کی تو دریائے نیل کے پانی کو ’’سیناء ‘‘ کے صحراء کی طرف پھیر دینے کی بات کی تاکہ تارکین وطن یہودوہاں پناہ گزیں ہوسکیں ،1905ء میں ایک عالمی سطح کے انجینئر ’’ڈیلوس ‘‘ نے نہر اردن کا جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ نہر اردن کا پانی ایک طویل عرصہ تک اسرائیل کی آبی ضرورتوں کے لئے کافی نہیں ہے اور تجویز پیش کی کہ لبنان کے لیطانی شہر یاحاصبانی نہر ( جو اردنی دریا کی شاخ ہے )کے پانی کو فلسطین کی اراضی کی طرف پھیردیا جائے-
پہلی عالمی جنگ کے بعد جب 1919ء میں پیرس میں صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی تو صہیونی تحریک نے کانفرنس کے سامنے ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں یہ مطالبہ کیا چونکہ فلسطین کو یہودیوں کے قومی ملک بنانے کا نظریہ یہودیوں کی نقل مکانی اور پانی کے ساتھ مربوط ہے لہذا عبرانی حکومت کی سرحدوں کا پانی کے سرچشموں کے ساتھ ملانا ضروری ہے- 1916ء میں جب ’’سائکس پیکو ‘‘ معاہدہ کے تحت عرب کے مشرقی ملکوں کی تقسیم عمل میں آئی تو برطانوی صہیونی تحریک کے ایک نمائندہ نے مطالبہ کیا کہ نہر اردن اور نہر لیطانی کو فلسطین کی حدود میں شامل کردیا جائے-
1897ء میں صہیونی ڈھانچے کے قیام کا اعلان ہوا اور جب فلسطین کی سرحدوں کے معاملہ پر اتفاق ہوگیا اور صہیونی تحریک نے اسے منظوری دے دی تب اس کے بعد اس تحریک نے اپنی اسکیموں کی تکمیل کی کوشش اور یہودیوں کے لئے قومی ملک کے قیام کے لئے ابتدائی حد بندی شروع کردی- پھرروئے زمین پر ایسے احوال پیدا کئے اور ایسے ادارے قائم کئے جن کی وجہ سے اس حکومت کے قیام کے لئے حالات ساز گار ہوگئے اور ضرورت اس بات کی محسوس ہوئی کہ وافر مقدار میں مال حاصل ہو اور نقل مکانی کرکے اس سرزمین کو اپنا وطن بنائیں اسی طرح پانی کے معقول انتظام کی ضمانت اور مغربی ملکوں کی حمایت کی بھی ضرورت پیش آئی- صہیونی تحریک کی یہ تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں جن کی حیثیت صہیونی خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے میں اساسی اور بنیادی تھی-
نہر یرموک سے بجلی کی پیدا وار ک لئے ’’روئمبرک ‘‘ پراجیکٹ پاس ہوا تاکہ عرب کے پانی پر قبضہ کی شروعات ہوجائے- اس کے بعد 1938ء میں ’’ہائس لوذرمپلک ‘‘ پراجیکٹ منظور کیاگیا جس کا خلاصہ تھا کہ ’’حیفا ‘‘ کے قریب بحر متوسط کی نہر کے ایک حصہ کو مشرق کی طرف پھیر دیا جائے تاکہ اس کا پانی بحر مردار میں جا کر گرے اور یہ کہ نہر اردن اور اس سے متعلقہ چشموں اور نہر لیطانی کے پانی پر قبضہ کرلیا جائے اور ’’حولہ ‘‘کی جھیل کو خشک کردیا جائے-
پانی کے سرچشموں پر قبضہ :1967ء کی جنگ کے بعد جب اسرائیل عرب کے پانی کے سرچشموں پر اور خاص طور سے اردن کے جنوبی حصہ کے پانی پر قابض ہوگیا تو اس سے پانی کے مسئلے نے خاصی پیچیدگی اختیار کرلی- اسرائیل کے لازماً ًطور پر پانی کو اپنی طرف کھینچ لے جانے کی وجہ سے نہر اردن کے دونوں طرف پھیلی ہوئی عرب کی زراعتی اراضی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اور 1978ء میں اس وقت پانی کے مسئلہ نے مزید پیچیدگی اختیار کرلی جب کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں سیکورٹی پٹی نامی علاقہ بسادیا- جس کے ذریعہ اس نے لبنان کے پانی کے سرچشموں پر اور خاص طور سے نہر حاصبانی کے پانی پر قبضہ کرلیا جو سالانہ تقریباً 25فیصد میٹھا پانی طبریہ جھیل کو فراہم کرتاہے مزید یہ کہ اسرائیل نے فلسطین کی ان اراضی کے اوپری حصہ پر اپنی کالونیاں بسادی ہیں جو مغربی کنارہ کے پانی کے حوضوں سے ملحق ہے اور خاص طور سے ایسا ’’اغوا ‘‘کے علاقہ میں کیا تاکہ فلسطین کی زمین کے ایک بڑے حصے کو ویران اور تباہ کردے ، نیز یہ کہ اسرائیل ان حوضوں کے پانی پورے اسراف کے ساتھ صرف کرتاہے جس کی وجہ سے توازن بگڑ گیا اور سالانہ ان حوضوں کے پانی کی فراہمی اور اس کے استعمال میں جو تناسب رہناچاہیے وہ باقی نہیں رہا- چنانچہ سالانہ اوسطاً ایک اسرائیلی شخص فلسطینی شخص کے مقابلے میں تین سے چار گنا زیادہ پانی خرچ کرتاہے- نتیجہ اس پانی سے فلسطینیوں کو اپنا وہ حصہ مکمل طور پر نہیں مل پا رہاہے جو ’’اوسلو ‘‘ کے دوسرے معاہدہ میں طے ہواتھا بلکہ حال یہ ہے کہ فلسطینیوں کے لئے اس پانی کا 80ملین مربع میٹر طے ہوا تھا اور انہیں 16سے 20ملین مربع میٹر ہی استعمال کے لئے حاصل ہو رہاہے- جہاں تک نہر اردن کی بات ہے تو اس کے بارے میں ’’جونٹسن ‘‘ پراجیکٹ کے مطابق یہ طے ہواتھاکہ تقریباً 220ملین مربع میٹر اس کے مغربی حصہ کا پانی فلسطین تک پہنچے گا لیکن اس وقت کے پانی کے استعمال سے فلسطینیوں کو روک دیا گیا ہے اور اس کے تقریباً 55 فیصد پانی کو اسرائیل استعمال کررہاہے- اسرائیل کے اس پانی کو ظالمانہ طور پر اپنی طرف لے جانے کی وجہ سے نہر کے دونوں طرف واقع اراضی کو بہت بڑا نقصان ہو رہاہے- مزید یہ کہ اسرائیل متعدد وادیوں کے تقریباً 45 ملین مربع میٹر پانی کو استعمال کررہاہے اور اس کو فلسطینی علاقوں میں پہنچنے سے روک دیا ہے-
1993ء میں اسرائیل اور فلسطینی جہاد ی تنظیم کے درمیان پانی کے سلسلے میں ’’اوسلو ‘‘ معاہدہ ہوا جس میں یہ بات ہوئی- باہمی تعاون کے لئے اور پانی کے نظم ونسق کو بحال کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور 1995ء میں صہیونی ڈھانچہ نے اس بات کا وعدہ کیاتھا کہ مغربی کنارے کے پانی کے حصہ میں اضافہ کرے گا- واضح رہے کہ یہ وہی فلسطینی پانی ہے جس میں سب سے پہلے اسرائیل 1967ء میں قابض ہوگیا تھا اردن اور صہیونی ڈھانچہ کے درمیان پانی کے موضوع پر پوری تفصیل کے ساتھ ’’وادی عربہ ‘‘ نامی معاہدہ ہوا جس پر دونوں فریقین نے 1994ء میں دستخط کئے- اس معاہدہ کا حاصل یہ ہے کہ نہر اردن اورنہر یرموک کے پانی کے سلسلے میں دوسرے عرب ممالک کے حقوق کو نظر انداز کردیا جائے- اس معاہدہ کی وجہ سے آبی وسائل کے فروغ کے میدان میں عربی یا حکومتی تعاون میں اسرئیل کی حیثیت ایک بنیادی فریق کی ہوگی اور نہر ادن اور درمیانی حوضوں کے پانی کے وسائل پر صہیونی تسلط کی بنیاد پڑ گئی- صہیونی ڈھانچہ زیادہ عرب کے پانی پر قبضہ اور اس کی چوری پر ہے چنانچہ اسرائیل عرب ملکوں کے پانی کے تمام ریکارڈ میں نظر آتاہے اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے :فلسطینی پانی کا ریکارڈ :اسرائیل پانی کے نئے سرچشموں کے تقریباً 80 فیصد پرقابض ہے جو پانی سالانہ تقریباً 650 ملین مربع میٹر ہوتاہے اور 20 فیصد کو ہر مربع میٹر ایک ڈالر کے بدلے فلسطینی عوام کو فروخت کرتاہے یعنی مغربی حصہ اور غزہ کے پانی کے اسٹاک پر اس کا قبضہ ہے-
شامی اور عراقی پانی کا ریکارڈ :شام کے گولان پہاڑیوں کے 40 فیصد پانی پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور یہ پانی کی ایک بہت بڑی مقدار ہے- سروے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ پانی نشیبی حصہ کے پانی کا دوگنا ہے اور اندازہ یہی ہے کہ اس پانی کی مقدار تقریباً ایک ارب ملین مربع میٹر ہے اسی طرح اسرائیل ترکی کا اس میں تعاون کرتاہے کہ دریائے دجلہ اور فرات کے پانی میں جو حصہ شام اور عراق کا ہے اس سے ترکی کھلواڑ کرے اور اسے غلط طریقے سے استعمال کرے-
لبنان کے پانی کا ریکارڈ :
’’نہر جوز‘‘ جونہر حاصبانی کی ایک معاون نہر ہے ، سے نکلنے والے ’’عین ‘‘ نامی پانی کے سرچشمے سے اسرائیل پانی کی بائپ لائن کھینچنے میں مشغول ہے جو اسرائیل ’’حاصبانی اور وزانی ‘‘ کے تقریباً 145 ملین مربع میٹر پانی کو سالانہ استعمال بھی کررہاہے اسی طرح وہ نہر لیطانی کے بھی ایک حصہ پر قابض ہے اور اسے نہر حاصبانی کی طرف ، پھر وہاں سے طبریہ جھیل کی طرف ’’خرولی ‘‘ کے پل کے قریب پانی نکالنے کے پلانٹ کے راستے سے پھیرنے میں لگا ہے-
اردن کے پانی کا ریکارڈ :اسرائیل اور اردن کے درمیان سلامتی معاہدہ ہوا جس میں اس بات پر اتفاق ہواکہ اسرائیل جاڑے کے موسم میں اردن کو اس بات کی اجازت دے گا وہ نہر اردن کے سیلابی پانی کے 20 ملین مربع میٹر پانی کو اسٹاک کرے اسی طرح 10 ملین مربع میٹر کھارے پانی کو بھی ان کھارے سرچشموں سے حاصل کرکے اسٹاک کرلے جس کا رخ نہر اردن کی طرف کردیاگیا ہے اور گرمی کے موسم کے علاوہ جن تاریخوں میں اردن کہے اسرائیل 10 ملین مربع میٹر پانی دے گا لیکن ہنوز اسرائیل نے ان معاہدوں پر عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے اردن پانی کی قلت سے دوچار ہے اور ترکی سے پانی خریدنے پر مجبور ہے-
بہرحال یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل عرب کے آبی وسائل پر ڈکٹیٹر بنا بیٹھا ہے اور عرب کے بعض ممالک اردن ، لبنان ، فلسطین ، شام براہ راست اور کچھ بالراست اس کی ڈکٹیٹر شپ کے شکار ہیں- پھر بھی عالمی برادری خاموش ہے
