چهارشنبه 30/آوریل/2025

’’نکبہ‘‘ فلسطینیوں کا ھولو کاسٹ ہے

پیر 19-مئی-2008

مارچ 2007ء میں جرمن بشپ کریگرماریہ فزاز ھانک نے کہا تھا کہ ’’ایک صبح ہم نے یادو الشم میں وار سائے انسانی باڑوں کی تصاویر دیکھیں اور اسی شام رام اللہ میں ہم نے انسانی باڑے دیکھے-‘‘
 سرزمین فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے ساٹھ برس مکمل ہونے کے موقع پر اسرائیلی لیڈر بے حد و حساب مسرور ہیں کیونکہ انہیں احساس ہوتا ہے کہ ساٹھ برس قبل انہوں نے فلسطینیوں سے کس طرح ساری زمین چھین لی تھی-
اسرائیلی وزیر خارجہ تسیبی لیفینی نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک فلسطینی نکبہ کا لفظ فراموش نہیں کردیتے- انہوں نے کہا کہ فلسطینی اپنی ریاست کے قیام کی خوشی اس وقت منائیں گے جب فلسطینی ’’نکبہ‘‘ کے لفظ کو فراموش نہیں کردیتے- تسیبی لیفینی کے والد ایتان نے اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے نئے نئے منصوبے تیار کیے تھے-
گزشتہ برس لیفینی نے کہا تھا کہ مغربی کنارے میں فلسطینی ریاست باقاعدہ حصوں پر قائم ہوگی- اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفارتکار نے دعوی کیا تھا کہ ’’نکبہ‘‘ کے لفظ ہی سے یہود دشمن کا حوالہ ملتا ہے نیز یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس لفظ پر بھی پابندی عائد کردی جائے-
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو فون کیا تھا اور ’’نکبہ‘‘ کی برسی کے موقع پر تعزیت کے کلمات کہے تھے- انہوں نے کہا کہ یہ اسرائیلیوں کی ذہنیت ہے کہ وہ اس لفظ کو بھی مٹادینا چاہتے ہیں کہ جس سے تاریخ کے ایک غیر معمولی سانحے اور حادثے کا ذکر ملتا ہے نیز یہ کہ ’’نکبہ‘‘ کا جرم ان لوگوں سے سرزد ہوا کہ جو توریت اور انسانی وقار کے علمبردار ہونے کا اعلان کرتے ہیں- لیفینی جبکہ لسانی صفائی اور قتل و غارت کے ساٹھ برس کی یادگار منارہی ہے جو چاہتی ہے کہ فلسطینی اس حادثہ کو بھول جائیں اور اس بات کو فراموش کردیں کہ انہیں ان کے اپنے وطن سے نکالا گیا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا گیا تھا-
لیفنی چاہتی ہیں کہ نازی طرز کے جتنے بھی جبر و ستم اسرائیلیوں نے کیے ہیں ان کو فراموش کردیا جائے اور فلسطینی صہیونیوں کے نوکر بن کر رہنے میں فخر محسوس کریں- لیکن ایسا ہرگز نہ ہوگا حقیقتاً فلسطینیوں سے یہ کہنا کہ وہ ’’نکبہ‘‘ کو فراموش کردیں یہ بات اتنی ہی اشتعال انگیز ہے جتنی یہ کہ یہودیوں سے کہا جائے کہ وہ ھولوکاسٹ کو بھول جائیں- ’’نکبہ‘‘ فلسطینیوں کے قتل عام کا نام ہی تو ہے-
آخر وہ فلسطینی جو پشتوں سے اس علاقے کے رہائشی ہیں اور جن کے عزیز و اقارب کا قتل عام ہوا تھا وہ اس واقعے کو یوں فراموش کردیں آخر فلسطینیوں کو کس طرح یہ بات بھول جائے کہ ان کا وطن تھا ان کا وطن نہیں ہے- اور ان کے جن بھائی بہنوں نے اپنے خون کی قربانیاں دی تھیں وہ رائیگاں چلی جائیں گی- اس میں کیا منطق ہے کہ فلسطینیوں کے وطن میں اسرائیلیوں کو اس لیے قائم کرنے دیا جائے کیونکہ یہودیوں کے پاس وطن نہیں ہے- یہ درست ہے کہ صہیونیوں نے وہی ہتھکنڈے اس طرح استعمال نہیں کیے جس طرح ان کے خلاف استعمال ہوتے تھے- کیا کوئی دن ایسا گزرتا ہے کہ جب کوئی فلسطینی بچہ، عورت اپنی ظالموں قاتلوں کے ہاتھوں اپنی جان نہ گوا بیٹھتا ہو-
امریکہ نے اسرائیل کو دنیا کی روشنی قرار دیا ہے لیکن اسرائیل کی یہ حالت ہے کہ وہ فلسطینیوں کو روزانہ کی بنیادوں پر تباہ کررہا ہے جس طرح نازی یہودیوں کو کرتے تھے- ھولوکاسٹ کا واقعہ چند دجن تک جاری رہا تھا لیکن جہنم کے یہ دن جلد ہی ختم ہوگئے تھے- تاہم فلسطینیوں پر جو کچھ گزر رہا ہے اس کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا- فلسطینیوں کا نکبہ آہستہ آہستہ ابھی تک جاری ہے-
فلسطینیوں کو اب بھی مارا جارہا ہے، ان پر تشدد کیا جارہا ہے، انہیں اپاہج بنایا جارہا ہے اور انہیں اپنے گھر سے نکالا جارہا ہے، فلسطینیوں کے گھر ابھی تک مسمار کیے جارہے ہیں، ان کے کھیت اور باغات اجاڑے جارہے ہیں، فلسطینی بھوکے مررہے ہیں، ان کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں، فلسطینیوں سے ابھی تک ان کی زمینیں چھینی جارہی ہیں اور یہ سارام کام صہیونی کررہے ہیں-
آج امریکہ کے ہر جونئیر سکول میں نکبہ این فرینک پر پڑھتے ہیں اور ہائی سکول ایلی ویسل کی Night کا مطالعہ لازمی ہے- یہ وہ شخص ہے کہ جو کھلم کھلا کہتا تھا کہ وہ اسرائیلی اقدامات میں ان کا برابر کا شریک ہے اور یہ کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتا-ہسپانوی فلاسفر سان تیاگو البار کو نے دو سال قبل کہا تھا کہ اسرائیل جیسی غیر منصفانہ ریاست دنیا میں کوئی اور نہیں ہوگی-

مختصر لنک:

کاپی