پنج شنبه 01/می/2025

بش کا مایوس کن خطاب

ہفتہ 17-مئی-2008

اسرائیلی پارلیمنٹ میں بش کی تقریر نے دنیا کے امن پسندوں کو مایوس کردیا ہے- اسرائیلی مملکت کے قیام کے 60 سالہ جشن کے موقع پر خود ان کا اسرائیل کا دورہ امریکہ کے ثالثی کے رول کو جہاں مشتبہ بنادیتا ہے وہیں اس علاقے میں اسرائیل کی مخالف طاقتوں کے خلاف ان کی تقریر یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ اسرائیل کے حق میں امریکہ کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانا چاہتے ہیں- جارج بش نے مخالف قوتوں کو اعتماد میں لینے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کے عزم اور ارادوں کو اور بھی مستحکم کیا ہے- ایک ثالث کی حیثیت سے ان کا یہ کہنا خود انتہائی قابل اعتراض ہے کہ ’’امریکہ کو فخر ہے کہ وہ اسرائیل کا انتہائی قریبی حلیف اور بہترین دوست ہے-‘‘
دنیا میں کسی تنازعہ کے مستقل اور پائیدار حل کے دو مسلمہ طریقے ہیں- ثالث کے ذریعے فریقین کے درمیان مصالحت اور مفاہمت کروائی جائے یا پھر قانون کے ذریعے انصاف کے حصول کو یقینی بنایا جائے- ثالثی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ثالث فریقین کے ساتھ مساویانہ فاصلہ برقرار رکھے- لیکن روز اول سے امریکہ، اسرائیل کے پشت پناہ اور مربی کے روپ میں دنیا کے سامنے آیا ہے- نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس کے رول کو مشتبہ نگاہوں سے دیکھتا ہے- عرب حکمرانوں کو اپنے اعتماد میں لے کر اگر امریکہ یہ تصور کرتا ہے کہ مشرق وسطی کے عوام اس کے قصیدہ خواہاں ہیں تو یہ اس کی سب سے بڑی غلطی ہے- اس نے اپنے ’’فریڈم ایجنڈے‘‘ کے ذریعے مشرق وسطی میں انتہا پسندی کے مقابلے میں جمہوریت کو آگے بڑھانے کا جو منصوبہ بنایا ہے اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اب دنیا کی حقیقی تصویر سامنے آئے گی- اسی وقت فلسطین کے تعلق سے عرب عوام کی حقیقی طاقت کا اسے اندازہ ہوگا- عرب حکمرانوں کی مطلق العنانی نے عوامی آواز کو دبا رکھا ہے-
جارج بش نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے رشتے کو ناقابل شکست قرار دیتے ہوئے اس سچائی کا اظہار تو کیا ہے ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ اسرائیل کے ساتھ صرف اپنے تعلقات توڑ لیتا ہے تو مشرق وسطی کے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے-‘‘ یہ چند لوگوں کی آواز نہیں ہے بلکہ عرب عوام کی آواز ہے لیکن جارج بش کی بدنصیبی یہ ہے کہ انہوں نے دوسری سانس میں اس خیال کی نفی کی ہے اور احمقانہ انداز میں کہا ہے کہ ’’یہ ایک تھکا ہوا استدلال ہے جو کہ ہمارے دشمنوں کے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے- امریکہ اس استدلال کو مسترد کرتا ہے-‘‘ بش نے یہ کہتے ہوئے عرب حکمرانوں کی آنکھ بھی کھول دی ہے کہ اسرائیل کی آبادی صرف 70 لاکھ تھی لیکن امریکہ کا ساتھ دینے کے نتیجہ میں آپ (یہودی) جب سے دہشت گردی اور بدی کا مقابلہ کررہے ہیں آپ کی تعداد کروڑوں میں آگئی ہے-
آج کے بدلے ہوئے حالات میں امریکہ کی سب سے بڑی ناسمجھی تو یہ ہے کہ وہ حماس، حزب اللہ اور القاعدہ کو جنگجو یا دہشت گرد تنظیمیں تصور کرتا ہے جب کہ یہ ایسی تنظیمیں نہیں رہیں بلکہ عرب عوام بالخصوص نوجوانوں کا ایک ذہن بن گئی ہیں- بصیرت سے محرومی کا نتیجہ ہے کہ بش نے نہ صرف ان تنظیموں کے خلاف لڑائی میں اسرائیل کو اپنا ایک حلیف قرار دیا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایران کے نیوکلیئر ہتھیاروں سے نمٹنے کے لیے اس کی کوششوں میں ساتھ دینے کی خواہش کی ہے-
 اسرائیل کی مسلسل پشت پناہی اور فلسطینی عوام سے ناانصافیوں اور ان پر اسرائیلی مظالم کے لامتناہی سلسلہ کا نتیجہ ہے کہ مشرق وسطی میں نہ صرف عسکریت پسندی کو فروغ حاصل ہوا ہے بلکہ عوام عرب شہریوں کا بھی مخالف امریکہ مخالف اسرائیل ذہن بن گیا ہے- یہ دونوں ممالک اپنی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے ذریعے اس علاقے کو آگ میں جھونکنے کے حالات تو پیدا کرسکتے ہیں لیکن اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتے- تاوقت یہ کہ وہ ان انتہاء پسند تنظیموں کی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیں گے اور ان کے حقیقی مطالبات کو قبول نہیں کریں گے-
جارج بش نے ساٹھ سالہ جشن کی تقاریب میں شرکت اور اپنی تقاریر کے ذریعے یہودیوں کو جو خواب دکھایا ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا فریب ہے- مستقبل کے مشرق وسطی میں ’’رواداری اور ہم آہنگی‘‘ کے جذبات کا خواب انتہاء پسندی کے خلاف لڑتے ہوئے نہیں دیکھا جاسکتا- حماس کے اقتدار پر آذنے کے بعد امن اور خیر سگالی کا ماحول بنانے کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی تھی لیکن اس نے نہ صرف حماس کی قیادت کو برگشتہ کیا ہے بلکہ فلسطینی عوام میں بددلی کے جذبات پیدا کیے ہیں-
معاشی تحدیدات کی برقراری اور مکہ معاعدے کے بعد فتح اور حماس کے درمیان خلیج اور بے اعتمادی پیدا کرنے کی پالیسی اور ایک عوامی منتخب جماعت کی جگہ عوام کی مسترد کردہ فتح کو اقتدار حوالے کرنے کی سازش نے رواداری اور ہم آہنگی کے انسانی جذبات کو جو مجروح کیا ہے انہیں مندمل کرنے کا کب موقع ملے گا امریکہ اور اس کے حلیفوں کو انتظار کرنا پڑے گا چونکہ ثالث کا جو کردار امریکہ کو ادا کرنا تھا اس سے وہ محروم رہا ہے-

مختصر لنک:

کاپی