چهارشنبه 30/آوریل/2025

کینیڈا کا ناواقف وزیراعظم

جمعرات 15-مئی-2008

کینیڈا کے وزیراعظم سٹیفن ہاربر نے فلسطینیوں کی حالت کے بارے میں ناپسندیدہ کلمات کہے ہیں- ان کا کہناہے کہ اسرائیل کی ’’نسلی صفائی ‘‘ کی پالیسیوں کے خلاف بیانات دینے اور ان کی مخالفت کرنے کا مطلب ’’یہود مخالفت‘‘ ہے-  اسرائیل کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر ٹورنٹو میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسرائیل وجود میں آنے کے ساٹھ سال بعد بھی خطرات کی زد میں ہے، انہوں نے ان لوگوں کو دھمکایا جو اسرائیل کو ختم کرنے کے بیانات دیتے ہیں –
لیکن قابل توجہ کی بات یہ ہے کہ آخر لوگ اسرائیل سے کیو ں نفرت کرتے ہیں، جو لوگ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں وہ یہودیوں سے بھی نفرت کرتے ہیں- ہاربر نے جوبیان دیا ہے اس کا مقصد یہ تھاکہ اسرائیلیوں کی زیادہ سے زیادہ ہمدردیاں حاصل کرلے وہ یہودیوں سے زیادہ بڑا یہودی بن کر سامنے آ رہاتھا-لیکن حقیقت میں وہ یہودیوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہاہے- یہ سمجھداری کی بات نہیں ہے کہ آپ کا دوست غلط راستے پر چل رہا ہو تو آپ بھی دوستی میں اس کے ہمراہ چلنا شروع کردیں-
آج اسرائیل طاقت کے نشے میں سرشار ہے، اسے امریکہ میں موجود اپنے دوستوں پر فخر ہے، نشے میں مدہوش ہو کر جو لوگ ڈرائیونگ کرتے ہیں ان کے دوست انہیں منع کرتے ہیں کہ وہ ڈرائیونگ نہ کریں کیونکہ اس سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے- اسرائیل کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو خبردار کریں کہ وہ اپنے ظالمانہ اقدامات ختم کرے اور جبر وتشدد کا راستہ روک دے- ہاربر نے اسرائیل کی مخالفت کو ’’یہوددشمنی ‘‘ کے متوازی قرار دیا ہے- یہ تو ایسے ہی ہے کہ تیسری ریخ مخالفت کرنے والوں کو آریہ نسل کی مخالفت قرار دیا جائے-
کیا ہاربر یہ حقیقت نہیں جانتے کہ ہزاروں کے لحاظ سے ایسے اچھے کردار کے یہودی موجود ہیں کہ جو اسرائیل اور اسرائیل کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں- محسوس ہوتاہے کہ ہاربر تاریخی حقائق سے واقفیت نہیں رکھتے، نیز وہ بددیانت بھی ہیں- 1948ء میں اسرائیل نے نازی جرمنی کے رویے کی پیروی کرتے ہوئے 460 فلسطینی قصبے اور دیہات گھیرے میں لے لیے اور سات لاکھ کے قریب فلسطینی مردوں، عورتوں، بچوں ،مسیحیوں اور مسلمانوں کو اس علاقے سے نکلنے پر مجبور کردیا اور ان سب کا کوئی قصور نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ یہودی نہیں تھے-  اسرائیل نے ان کا قتل عام کیا، ان کے گھروں کو تباہ کیا، ان کے کھیتوں پر قبضہ کیا، ان کا سازوسامان لوٹ لیا -جو لوگ اس علاقے سے نکال دیئے گئے ان میں سے اگر کسی نے آکر سامان لینے کی کوشش کی جیسا کہ میرے تین چچائوں نے کیا تھا، ان کو گولی مار دی گئی-
ایسے بیانات دینے سے قبل ہاربر کو چاہیے تھاکہ وہ فلسطینیو ں سے ملاقات کرلیتے، ان سے کچھ کینیڈا میں بھی رہتے ہیں- ہاربر ان سے مل کر بھی معلومات لے سکتے تھے- اگر ہاربر سچائی سے آگاہ ہوناچاہیے تھا تو انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ لڑائی مذہب کے بارے میں یا یہود دشمنی کے بارے میں نہیں ہے، اسرائیلی بھی اور فلسطینی بھی ’’نسلی طور پر ایک گروہ‘‘ہیں –
فلسطین کا مسئلہ قبضے نسلی تطہیر، تعصب، دور غلامی، تشدد اور جرم وستم کے بارے میں یہاں مسئلہ ان لوگوں کے بارے میں ہے کہ جنہیں اس لیے قتل کیا جا رہاہے کہ وہ صحیح قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے- ہم ان مکانوں کی بات کررہے ہیں کہ جنہیں مسمار کردیا گیا ہے کیونکہ ان مکانوں کے مکین ان کے قبیلے سے نہیں تھے- یہ ان لوگوں پر کئے جانے والے تشدد کا تذکرہ ہے جو ’’کم تر ‘‘ نسل سے تعلق رکھتے ہیں –
یہ ان فلسطینیوں کے بارے میں ہے کہ جن کو اجتماعی طور پر قتل کردیا گیا، یہ ایک پوری قوم کو نقشۂ ارض سے مٹادینے کی کہانی ہے- میں وزیر اعظم ھاویر سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ ان اقدامات کو اپنے وطن میں جائز، قانونی قرار دے سکتے ہیں- ایک ایسی قوم جس کے پاس تین سو سے زائد جوھری ہتھیار موجود ہیں اور جس کے پاس دنیا کی انتہائی تجربہ کار فوجوں میں سے ایک فوج ہے اور جو دنیا کی واحد پاور کی پالیسیوں کو کنٹرول کرنے کا اعزاز رکھتی ہے کیا اسے کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل آج بھی اپنے شہریوں کو اپنے زیر تسلط افراد کو اور فلسطینیوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے- مغربی کنارے میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے رہائشی مراکز کو ’’نظر بندی مراکز‘‘ میں تبدیل کردیا ہے- غصب شدہ زمین پر متنازعہ دیوار تعمیر کرنے کی وجہ سے سڑکوں پر ہزاروں رکاوٹیں اور چوکیاں تعمیر ہو رہی ہیں- ان سڑکوں پر ایسے فوجی تعینات کیے گئے ہیں جو بے کس، بے بس فلسطینیوں کو ذلیل و رسوا کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں-
غزہ جسے قوموں کی روشنی کی حاصل ہے- وہاں پندرہ لاکھ انسانوں کو آہستہ آہستہ موت کے حوالے کیا جارہا ہے ان کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ اسرائیل کے مخبروں اور ٹائوٹوں کو اپنے لیڈر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں- نازی دور میں یورپی عدالت جس قدر بے بس تھی، اسی طرح آج کے دور میں فلسطینی بے بس ہیں- اخلاقیات سے محروم، شرمناک مغربی راہنماء ان میں کینیڈا کے وزیر اعظم بھی شامل ہیں ایسے اقدامات پر تالیاں بجارہے ہیں کہ جن میں بچوں اور بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کا قتل عام بھی شامل ہے-
ایک زمانہ تھا کہ جب کینیڈا کو فخر حاصل تھا کہ وہ عالمی قانون کی پاسداری کرتا اور انسانی حقوق کے احترام اسے سب سے زیادہ ہے- اب کینیڈا کو چاہیے کہ وہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں اسرائیل کی حمایت کرنا بند کردے- کینیڈا کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو تبادلے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو قتل کرنے کا عمل غلط ہے- حماس کو کمزور کرنے کے لیے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا غلط ہے- ایندھن اور بجلی کی فراہمی بند کرنا، خوراک اور اشیائے خورد و نوش کو روکنا اور کسی کو غزہ شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا انسانیت کے خلاف جرم ہے-
بجائے اس سے کہ کینیڈا حق بات کے ساتھ تعاون کا اعلان کرے، کینیڈا اسرائیل کے رویے کی تعریف و تحسین کررہا ہے- یہ تو ایسے ہی ہے جیسا کہ وائٹ ہائوس کی جانب سے اسرائیل کے سب سے بڑے جنگی مجرم کو ’’انسان امن‘‘ قرار دیا گیا اور اس بات کو فراموش کردیا گیا کہ اس کے ہاتھوں پر انسانوں کا ’’منوں‘‘ کے حساب سے خون ہے-

مختصر لنک:

کاپی