چهارشنبه 30/آوریل/2025

باطل سانحے کی یاد کیوں منائیں

منگل 13-مئی-2008

معتدل ذہن رکھنے والے لوگوں کی طرح معتدل قومیں ان دنوں کی کی یاد نہیں مناتیں جن سے ان کے برے اعمال وابستہ ہوں- حقیقتاً ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان دنوں سے نجات حاصل کرلیں- وہ سرانجام اپنے گناہوں کا اعتراف کرتی ہیں اور جن لوگوں کے ساتھ ظلم و ذیادتی کی ہو، ان کے کھلم کھلا معاف طلب کرتی ہیں-
لیکن اسرائیل جو برائی اور قوم پرستی کا مرکز ہے- وہاں نسلی صفائی کو قومی کامیابی کے طور پر بڑے فخر و اعزاز کے ساتھ منایا جاتا ہے اور اس کو کامیابی کی داستان قرار دیا جاتا ہے اور جب یہ کہانی سنائی جارہی ہوتی ہے کہ ان کی زبانوں اور آنکھوں سے رشک ٹیک رہا ہوتا ہے-
ساٹھ برس پہلے انسانی تاریخ کے ڈاکوں میں سے سب سے بڑا ڈاکہ پڑا، جب صہیونی مسلح جتھوں نے مقامی فلسطینیوں کے خلاف قتل و غارت اور جرم و ستم کی داستان کا آغاز کیا، صہیونی مسلح جتھوں نے ہزاروں معصوم فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ان سے زندگی کا حق چھین لیا، ہزاروں گھر تباہ کردیے، سینکڑوں دیہات الٹ پلٹ دیے اور فلسطینیوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کیا جہاں وہ اور ان کے آباؤ اجداد ہزاروں سالوں سے بس رہے تھے، اسرائیل کے مؤرخ اور سیاسی تجزیہ نگار ایلان پاپے نے اپنی کتاب ‘‘فلسطین کی نسلی تطہیر’’  میں تحریر کیا ہے کہ  ‘‘فلسطینیوں کی نسل تطہیر انتقامی حادثہ’’ نہیں تھا- اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ویزمین کا کہنا تھا کہ یہ  ‘‘معجزہ ’’ تھا، یہ معجزہ بھی نہیں تھا، بلکہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ تھا اور اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی-
اب ساٹھ برس کے بعد ظلم و زیادتی اور جبر و ستم کا نشانہ بننے والے فلسطینی اب بھی منتظر ہیں کہ انہیں کب دوبارہ بسایا جائے گا- اور ان کے ساتھ جو طویل ظلم و ذیادتی کی گئی انہیں اس کا معاوضہ ادا کیا جائے گا- اس جبر و ستم اور ظلم و ذیاتی کا نام انہوں نے ‘‘جنگ آزادی’’  اور  ‘‘قومی کامیابی’’ رکھا ہے-
صہیونیت قوم پرستی پر مبنی ایک نظریہ ہے جس میں خدا کا کوئی تصور موجود نہیں ہے- یہودیوں کو اس میں زبردستی شامل کرلیا گیا ہے اور وہ فلسطینی قوم کو یہاں سے نکال باہر کرنے کو نازیت اور ھولوکاسٹ کا منطقی جواب سمجھتے ہیں- یورپ میں خصوصی طور پر اور مغرب میں عمومی طور پر اسرائیل کے قیام کو ایک ایسا واقعہ سمجھا جاتا ہے کہ جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جارہا تھا تاکہ دنیا بھر کے یہودیوں کو یہاں لاکر بسادیا جائے اور ھولوکاسٹ کے موقع پر ان لوگوں سے جو ظلم و ذیاتی کی گئی تھی اس کا ازالہ کیا جاسکے-
جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے جس سے ان کی زمین اور ان کا علاقہ چھین لیا گیا تھا جن کی زمین پریورپ میں مار کھانے والے یہودیوں کو لاکر بسایا گیا تھا- ان کے نزدیک اس معاملے سے کسی اور کا تعلق نہیں تھا-
فروری 1970ء میں بریسٹر ینڈ رسل نے اپنے ایک پیغام کے ذریعے قاھرہ میں ہونے والی عالمی پارلیمانی کانفرنس میں ان الفاظ میں کیا تھا-
’’فلسطین کے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی سرزمین کو ایک غیر ملکی طاقت نے ایک تیسری قوم کے حوالے کردیا تھا تاکہ وہ اپنا وطن بنا سکے- اس کا رزلٹ یہ نکلا کہ ہزاروں لاکھوں معصوم لوگوں کو اپنے گھروں سے محروم کردیا گیا- ان کو جس قدر المیے پیش آتے رہے ان کی تعداد میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہوتا چلا گیا-‘‘
رسل سوال کرتا ہے کہ ظلم و ذیادتی کے اس سلسلے کو دنیا کب تک برداشت کرے گی- یہ صاف صاف واضح ہے کہ فلسطینیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ انہیں جس مقام سے نکالا گیا تھا انہیں اسی مقام پر آنے کی دوبارہ اجازت دی جائے اور جب تک واپسی کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا- مسئلہ فلسطین کبھی حل نہیں ہوسکتا- آخر فلسطینیوں کو ایسی سزا کیوں دی جارہی ہے کہ جس کی سزا کوئی اور پانے کے لیے تیار نہیں ہے- آج اسرائیل نسلی تطہیر کے ساٹھ برس پورے ہونے کی یاد منا رہا ہے جب گھر تباہ ہوئے تھے، زمینوں پر قبضہ کیا گیا تھا، نسل پرستی عروج پر تھی، قتل و غارت اور جبر و دہشت گردی اپنے لب بام پر تھی اور یہ سارا سلسلہ اب بھی جاری ہے- فلسطینی بے حد و حساب قیمت ادا کرنے کے بعد بھی اپنے گھروں میں آنے سے محروم ہیں اور یہ قیمت معمولی نہیں ہے یہ قیمت انہوں نے اپنے خون اور اپنے بال بچوں کے خون سے ادا کی ہے- صہیونیوں نے جس قدر بھی سازشیں کی ہیں، فلسطینیوں نے اس کو برداشت کیا ہے اور صہیونیت کو ناکام بنایا ہے-
اسرائیلی صہیونیوں نے نازی جرمنی کے طور طریقے اختیار کرلیے ہیں اس کا ثبوت غزہ کی پٹی ہے جہاں پندرہ لاکھ انسان حصار بندی کا شکار ہیں- ان پر بم گرائے جاتے ہیں، ان کو فاقوں پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس بات کی بھی سزا دی جارہی ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت کیوں منتخب کی جو اسرائیل کو پسند نہیں ہے اور امریکہ کو پسند نہیں ہے-
جہاں تک مغربی کنارے کا تعلق ہے اسرائیل نے فلسطینی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کو گسٹافو طرز کے اسرائیلی فوجیوں کے لیے نظر بندی مراکز میں تبدیل کردیا ہے کہ جہاں فلسطینی بیٹھے اپنے گھروں، سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کو یاد کررہے ہیں کہ کیا کبھی مجھے نہیں معلوم کہ یہودی ذہن بھی بیدار ہوگا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہودیوں کا ضمیر بھی ہے، کس طرح ‘‘ضمیر’’  اور  ‘‘صہیونیت’’ ایک ہی چیز کے دو نام بن سکتے ہیں؟
ضمیر کا مائد بننے کے لیے ضروری ہے کہ مرد غلط اور صحیح میں فرق کرسکے- یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جو مجموعی طور پر یہودیوں کے مائنڈ سیٹ سے ہٹ کر ایک چیز ہے- مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب میں سوچتا ہوں کہ اپنی ذات میں گم یہ لوگ آئندہ دیکھتے ہوں گے تو انہیں کیا محسوس ہوتا ہوگا- انہیں کیسا محسوس  ہوتا ہوگا انہیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا کہ جب وہ یہ سوچتے ہوں گے کہ وہ غصب شدہ اراضی غصب شدہ زمینوں پر رہ رہے ہیں- جس کے اصل مالکان کو نکال باہر کردیا گیا اور گزشتہ ساٹھ برسوں میں ان کی یہ حالت کردی گئی ہے کہ وہ نسل درنسل مہاجر کیمپ میں رہ رہے ہیں-
جس شخص میں ایماندار کی معمولی سی رمق بھی موجود ہوگی وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے تاکہ یہ صہیونی  ‘‘چور اور ڈاکو’’  ہیں بے شک اس دور ان کے کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جو اپنے گھروں اور کاروبار سے محروم ہوئے تھے نیز وہ پولینڈ، جرمنی اور مشرقی یورپ اور چند عرب ممالک میں اپنی زمین سے محروم ہوئے تھے- لیکن کیا انہیں یہ حق مل گیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو قتل کریں- ان کو اپنے گھروں سے نکال باہر کریں، ان کے گھروں پر قبضہ کریں، ان کے باغوں اور کھیتوں پر قبضہ کریں اور ان کو ہوائے رخ پر بہنے کے لیے نکال باہر کریں-
اس بے انصافی کو قبول نہیں کیا جاسکتا- دنیا کے قوانین اور آخرت کے قوانین کوئی بھی اس کی سرپرستی نہیں کرسکتے جو ذیادتیاں ہوتی ہیں اس کا ازالہ کیا جائے اور بے انصافی ہوئی ہے اس کا معاوضہ دیا جائے ورنہ امن قائم نہیں رہ سکے گا- اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ اسرائیل کا قیام بہت بڑی بددیانتی ہے- یہ آئندہ آنے والے ہر دور میں بددیانتی ہی رہے گی- چاہے کتنا وقت گزر جائے اسرئایل ایک ایسی مصنوعی حقیقت ہے کہ جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا- بہت سے لوگ ہیں کہ جو اب بھی اسرائیل کو حقیقی اور جائز ریاست سمجھتے ہیں-
لیکن اسرائیل کا قیام فلسطینیوں کی زمین پر وجود میں لایا گیا تھا- اس کی حیثیت ناجائز ریاست کی ہے اور فلسطینیوں کے لیے یہ ناجائز ریاست ہی رہے گی-

 

مختصر لنک:

کاپی