ساٹھ برس قبل اسرائیل نے انسانی لاشوں پر جس ناجائز مملکت کی بنیاد رکھی تھی – اس اندوہناک واقعے کی یاد ساٹھ برس بعد صہیونی فلسطینیوں کا خون بہا کرمنا رہے ہیں- 27اپریل کو اسرائیل کی ‘‘دفاعی افواج’’ نے بیت حنون میں ایک ماں اور اس کے چار بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا- بد نصیب ماں اور اس کے بچے ناشتہ کررہے تھے کہ اسرائیلی میرقافہ جنگی ٹینک سے گرائے جانے والے گولے نے ان کو اڑا کر رکھ دیا اور ان کے جسموں کے پرخچے اڑگئے-
کٹے پٹے جسموں کی تصاویر نے اسرائیلی لیڈروں اور صہیونی و امریکی رائے عامہ میں کوئی جنبش پیدا نہیں کی، نازی ذہن رکھنے والے صہیونی یہ کام ساٹھ برس سے کررہے ہیں اور محسوس ہوتاہے کہ دنیا نے ان جرائم پر اسرائیل سے مفاہمت کلی کر رکھی ہے اور اسے روز مرہ کا کام سمجھ لیا ہے- اس سے سمجھنا سان ہے کہ مشرق وسطی کے لوگوں کے خلاف اسرائیل کی کاروائیوں پر ردعمل کیوں نہیں ہوتا- کوئی بھی شخص جو صہیونیوں کے طرز فکر و عمل سے آگاہ ہے بآسانی بتا سکتاہے کہ جب کبھی اسرائیلی قابض فوج کوئی بھیانک جرم کرتی ہے، اسرائیلی لیڈر اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اس کے بارے میں تحقیقات کی جائیں- اس کی بجائے وہ ذرائع ابلاغ کی مشینری کو متحرک کردیتے ہیں تاکہ اسرائیل کو اگر کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو نہ پہنچ سکے-
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج نے پورے خاندان کو اس انداز میں شہید کیا ہو کہ جس نے بھی اس کے بارے میں سنا وہ ‘‘غم و غصے اور حیرت’’ کا شکار نہ ہو ا ہو- بچوں کو قتل کرنے والے ان ظالم اسرائیلیوں کا دعوی ہے کہ یہ بچے اسرائیلی حملے سے جاں بحق نہیں ہوئے تھے بلکہ فلسطینی نقاب پوش مجاہدین نے ان بچوں کو دھماکہ خیز مواد سے اس طرح اڑا دیا کہ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جاسکے – یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقع نہیں ہے – اسرائیل کی تاریخ بھی اجتماعی اور انفرادی قتل کام سے بھرپور ہے، یہ کہنابے جا نہ ہوگا کہ اسرائیل کا اپنا وجود ہی انسانیت کے نام پر دھبہ ہے اور یہ جرم انسانیت کے خلاف مسلسل جاری ہے – انسانیت کے خلاف ہونے والا یہ واقعہ تن تنہا رونما نہیں ہوا جس طرح 1943ء میں پولینڈ کے شہر وارسا میں یہودیوں کو‘‘ باڑے’’ (toGhet)میں بند کردیا گیاتھا، اسی طرح غزہ کی پٹی کا محاصرہ جاری و ساری ہے –
یورپ اور شمالی امریکہ کے کئی لوگ اس کو تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ سیاسی لحاظ سے یہ درست نہ ہوگا – مغرب یہ چاہتاہے کہ فلسطین میں وسیع پیمانے پر ایک تباہی رونما ہو اور ماضی کے واقعات قصہ پارینہ بن جائیں- کیا فلسطینی بچوں کو ہر صبح اور ہر شام اس لیے قتل کیا جاتارہے تاکہ اہل مغرب کے ذہن سے ہولوکاسٹ کی یاد بھلائی جاسکے – پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو خوراک ، ادویات، ایندھن اور ملازمت سے محروم کرکے انہیں غربت اور قحط کے سمندر میں پھینک دیا گیا ہے-
بوڑھے لوگ جن کا مقامی سطح پر علاج موجود نہیں ہے وہ تکلیف سے کراہ رہے ہیں،اندازہ لگایا گیا ہے کہ دو سو سے زائد فلسطینی افراد نازی طرز کے محاصرے کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں- اسرائیلی حکومت کے افسران، یورپی ذرائع ابلاغ پر اعلان کرتے سنائی دیتے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں انسانی المیہ رونما نہ ہوگا- صہیونی اس کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں کہ وہ جھوٹے وعدے کرتے رہیں، جھوٹے اعلان شائع کراتے رہیں اور سکولوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرتے رہیں کیا ہم یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک ایسی حکومت کے جو یتیم بچوں کی خوراک دبائے بیٹھی ہوایسے بچے جن کے والدین کو بھی شہید کیا جاچکاہے- ایک ایسی حکومت جو اپنے فوجیوں کو حکم دیتی ہے کہ سٹوروں اور خریداری مراکز پر حملے کرے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے کپڑے، جوتے، بنیان بلکہ زیر جامے بھی چرا لئے- ہم ایک ایسی حکومت سے کیا امید لگا سکتے ہیں جس کے فوجیوں نے بارہ سالہ سکول کی بچی کو گولیاں ماریں اور یہ دیکھنے کے لیے گولیاں اپنا کام کرگئی ہیں یا نہیں، بیس گولیاں اس کے جسم کے مزید رپار کیں- ہم ایک ایسی حکومت سے کیا امید کرسکتے ہیں کہ جس کے فوجی بلڈوزرمظاہرین پر چڑھ دوڑتے ہیں اور بعد میں اعلان کیا جاتاہے کہ بلڈوزر ڈرائیور نے وہی کیا جس کا حکم دیا گیاتھا اور اس نے کوئی کام غلط نہیں کیا –
بلاشک و شبہ اسرائیلی ریاست ایک نازی طرز کی ریاست ہے – مجھے معلوم ہے کہ اسرائیل نے اچھے سائنسدان پیدا کئے ہیں- اچھے ہسپتال بنائے ہیں- نیز سائنس ٹیکنالوجی اور دیگر میدانوں میں کافی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں- لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج کی اخلاقیات بھی بہت اعلی ہیں- نازی جرمنی نے بھی کئی سائنسدان پیدا کئے تھے، بہت سے اچھے ہسپتال بنائے تھے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کی تھیں- لیکن اسے کیا نام دیا جائے کہ ان الیکٹرانک آلات اور جدید ٹیکنالوجی کا کیا فائدہ ہے کہ اسے سوتے ہوئے بچوں اور عورتوں اور معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے استعمال کیا جا رہاہو-
ایک ایسی خوش حال ریاست کا کیا فائدہ ہے کہ جس کی بنیاد ظلم و جبر ، قتل و غارت اور لسانی صفائی پر رکھی گئی ہے- ممکن ہے کہ اسرائیل ایک جدید جمہوری اور با اصول ملک کے طور پر سامنے تاہے – لیکن فلسطینیوں کے نزدیک اسرائیل ایک غاصب ، زہزن اور غارت گر ملک ہے اس کے سوا کچھ نہیں – اسرائیل نے ہم سے ہماری زمین چھین لی – ہماری قوم کے لوگوں کو تتر بتر کردیا – ہمارے گھروں کو تباہ کردیا، ہمارے دیہاتوں اور شہروں پر بلڈوزرپھیر دیئے ، ہمارے پانی کے کنوئوں میں زہر ملا دیا ، ہمارے لوگوں کو دنیا کے چار کونوں میں منتشر کردیا -یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں اسرائیلی لیڈر اور ترجمان بے شرمی سے اعلان کرتے ہیں کہ یہ ’’دہشت گرد‘‘ ہیں – بلاشک و شبہہ اسرائیل فوجی لحاظ سے اور اقتصادی لحاظ سے طاقتور ہے ، اس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں اور اسرائیل نواز پریشر گروپ امریکی حکومت کو چلاتے ہیں اور امریکی ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کاقبضہ ہے – لیکن دنیا بھر کی ریاستیں اس پرخاموش بیٹھی ہیں – بد ریاستیں طویل عرصے تک قائم نہیں رکھ سکتیں اور اسرائیل اس معاملے میں خاص نہیں ہے –
