14مئی کو اسرائیلی اپنے قیام کا جشن منا رہا ہیں اور فلسطینی اس سانحے کاماتم کررہے ہیں،امریکہ کے صدر بش نے اسرائیلیوں کے جشن میں شریک ہونے کے لیے چھ روزہ دورے کا اعلان کیا ہے وہ 13مئی کو اسرائیل پہنچ کر جشن کی رونق کو دوبالا کریں گے،کاش کوئی فلسطینیوں کے دکھوں میں شریک ہوکر ان کے دکھوں کا مدعوی کرے-
جنازے پر رقص اور ماتم یہ کیسی ریاست ہے یہ کس نے کیا کیوں کیا؟ان سوالات کے جوابات کے لیے اس وقت کی سپر پاورز کے رویوں بارے غور کرنے ہی سے مل سکتے ہیں، برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونے کے لیے آخری ہچکولے کھا رہاتھا تو امریکی سامراج نئے انداز سے طلوع ہونے کے لیے کروٹیں بدل رہاتھا،ایسے میں مشق ستم صرف مسلمان ہی بنے ہوئے تھے- خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے جارہے تھے،عرب اور عجم کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کی جارہی تھیں-مسلمان حکمران اس وقت بھی اپنی اپنی باری کا نتظار کررہے تھے، جس طرح آج کررہے ہیں-اتحاد کی کمی ہی سے فائدہ اٹھاکر برطانیہ مسلمانوں پر چڑدوڑاتھا-
برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بلفور نے1917ء میں اعلان کیا کہ وہ یہودیوں کے لیے فلسطین میں ریاست قائم کریں گے، حیران کن بات یہ تھی کہ فلسطین میں صرف 7 فیصد یہودی آباد تھے،اس وقت یہودیوں کی کل آبادی فلسطین میں 55 ہزار تھی اورفلسطینی مسلمانوں کی آبادی 30 لاکھ تھی جو آبادی کا93 فیصد تھی ،ایسی سر زمین جس پر93 فیصد فلسطینی صدیوں سے رہ رہے تھے وہاں پر برطانیہ نے یہودیوں کے لیے ریاست قائم کرنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا،دسمبر 1917ء سے لے کر 1947ء تک فلسطین برطانوی انتداب کے ماتحت رہاہے،یہی وہ دور ہے جس میں برطانیہ نے اپنی زیر نگرانی یہودیوں کو باہر سے فلسطین میں لایا اور ان کی آبادکاری کا عمل شروع کیا،برطانوی افواج یہودیوں کی عسکری تربیت کا بندوبست بھی کرتی اور ان کے لیے اسلحہ بھی فراہم کرتی رہیں-
برطانوی انتداب اور ان کی نگرانی میں یہودی آبادکاری کے خلاف فلسطینیوں نے مزاحمت کا آغاز کیا،1922ء میں الحاج امین الحسینی کی قیادت میں مزاحمت کی مگر برطانوی افواج کے مقابلے میں ان کی سپاہ بہت کم تھی، اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا اور ملت سلامیہ کو قومیتوں میں تقسیم کردیاگیاتھا،برطانیہ نے اسی تقسیم کا فائدہ اٹھایا –
14مئی 1947ء کو جب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی تھی،233 گاؤں مکمل طور پر فلسطینیوں سے خالی کراکر ا ن کے گھروں میں اسرائیلی آباد کیے جاچکے تھے،1947ء کو 9لاکھ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا-دو لاکھ سے زائد کو شہید کردیا گیا اور لاکھوں کو زخمی کیا گیا-
اسرائیل کے قیام کے اعلان کے ساتھی ہی برطانوی افواج وہاں سے نکل گئیں اور اسرائیل کو امریکہ کی سرپرستی میں دے دیا گیا،تب سے امریکہ اسرائیل کی دیکھ بحال کررہاہے،اس کی ضروریات پوری کررہاہے-
اقوام متحدہ نے دوریاستی نظریہ پیش کیا اور قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ فلسطین کے 47فیصد علاقے پر اسرائیلی ریاست رہے گی اور 53 فیصد علاقے پر فلسطینی اپنی ریاست قائم کریں گے- مگر اسرائیلیوں نے طاقت کے روز پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین کے 78فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا،امریکہ کی مکمل حمایت اسرائیل کو حاصل تھی اس لیے جو بھی قرارداد اقوام متحدہ میں جاتی تھی اس کو امریکہ ویٹو کردیتاتھا اور اسرائیل اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا-
نئے نو آبادیاتی نظام کے تحت اسرائیل اپنے نقشے کو وسعت دینا چاہتاتھا اس لیے یہودیوں نے اپنی پارلیمنٹ جس کو وہ کینسٹ کہتے ہیں کی پیشانی پر بحر سے نہر تک کی عبارت لکھی ہوئی ہے جو آج بھی اس کے عزائم کی نشاندھی کررہی ہے-
اسرائیل کا قیام بھی سپرپاور نے ہی عمل میں لایااور اس کاسہارا بھی سپر پاور ہی ہے،اس لیے اسرائیل نے دھشت گردی جاری رکھی اور 1967ء میں باقی ماندہ فلسطین پر بھی قبضہ کرلیا،اس سات روزہ جنگ میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں زخمی ہوئے اور 4لاکھ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا،اسرائیل نے مسجد اقصی سمیت مصر کے صحرائے سیناء ،شام کی پہاڑیاں گولان اورجنونی لبنان کے علاقے پر قبضہ کر لیا-
اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے ،3سو سے زائد گائوں کو مکمل طور پر خالی کرالیے ،چار سو مساجد شہید ہوئی حتی کے صہیونیوں نے 2اگست 16ء کو مسجد اقصی کو نذر آتش کیاجس سے صلاح الدین ایوبی کا منبر بھی جل کر رکھ کا ڈھیر بن گیا،اسی کے ردعمل میں ا سلامی سربراہی کانفرنس او،آئی ،سی کا قیام عمل میں آیا-صہیونیوں نے فلسطینیوں کے مکانات اور زمنیوں پر قبضہ کرلیا،یہ ساری جارحیت انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی موجودگی میں کی گئی-ظلم اور جبر کے باوجود فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور حق کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی انھوں نے کسی بھی مرحلے پر اسرائیل کو اپنی کمزروی نہیں دکھائی جس کی وجہ سے اسرائیلی خائف ہیں-
اقوام متحدہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ قراردادیں اسرائیل کے خلاف پاس ہوئیں،،مگر اسرائیل نے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا،14ء سے اب تک اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سات سو قراردادیں پاس ہوئی ہیں جو ایک ریکارڈہے-اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سب سے زیادہ قراردادیں پیش ہوئی جن کو امریکہ نے ویٹوکر دیا،سلامتی کونسل میں سب سے زیادویٹو امریکہ نے کیاجو ریکارڈ ہے اور وہ اسرائیل کی حمایت میں کیا-
اسرائیل کے امریکہ کی حمایت کا ناجائزہ فائدہ اٹھاتے ہوئے ظلم کے سارے حربے فلسطینیوں پر آزمائے مگر ان سب کے باوجود فلسطینی باز نہ آئے تو اسرائیل نے مذاکرات کے نام پر نیا کام شروع کیا،سب سے پہلے مصر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہد ہ کیا،اس کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ اوسلو معاہدہ 19ء میں کیا،پھر وائی ریور معاہدہ اس کے ساتھ معاہدوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا-اسرائیل خود معاہد ے کرتا اور خود ہی توڑ دیتا-آخرمیں سابق وزیر اعظم ارئیل شیرون نے تمام معاہدے توڑ کر اوسلومعاہدے کے تحت فلسطینیوں کو جو دو فیصد علاقے ملے تھے وہ بھی واپس لے لیے-
فلسطینیوں نے 18ء میں حماس کے پلیٹ فارم سے انتفاضہ کا آغاز کیا،اس انتفاضہ نے اسرائیل کی چولیں ہلاکر رکھ دیں،اس انتفاضہ نے صہیونیوں کو اسرائیل چھوڑنے پر مجبور کردیا،دو لاکھ یہودی روس واپس آئے جو ہجرت کرکے اسرائیل چلے گئے تھے اسی طرح دیگر ممالک کی طرف بھی چلے گئے اسرائیل کی طرف ہجرت میں نمایا ں کمی آئی،اسرائیل سے بھاگنے والوں میں علی خاندان اور علی آفیسرز کے خاندان تھے جس کی وجہ سے چھوٹے طبقے پر برے اثرات پڑے-
ا مریکہ کی طرف سے ٹرلین ڈالر امداد کے باوجود صہیونی اسرائیل میں رہنا موت کودعوت دینا خیال کرتے ہیں،امریکی سابق صدر جمی کارٹر نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ حما س کومذاکرات میں شامل کیے بغیر اور فلسطینیوں کو ان کا حق دیے بغیر فلسطین میں امن قائم نہیں ہوسکتا-
خود اسرائیلی دانشور اب کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیلی قیام کے پیچھے برطانیہ اور بقا امریکہ کے سہارے قائم ہے،ان کے شعر وادب میں یہ حقیقت شامل کی جارہی ہے کہ اسرائیل جس دن بیساکھیوں کو چھوڑ دے گا یا بیساکھیاں ٹوٹ جائیں گی اس دن اسرائیل پکے ہوئے پھل کی طرح زمین بوس ہوجائے گا-اسرائیل آج تک اگر قائم ہے تو اس کے پیچھے سپر طاقتیں کام کررہی ہے ،اسرائیل آج تک اگر قائم ہے تو اس کے پیچھے ظلم اور جبر کارفرماہے،یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ ظلم پر زیادہ دیر کوئی ملک او ر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا-اسرائیل تیزی کے ساتھ اپنے انجام کی طرف گامزن ہے-
جنازے پر رقص اور ماتم یہ کیسی ریاست ہے یہ کس نے کیا کیوں کیا؟ان سوالات کے جوابات کے لیے اس وقت کی سپر پاورز کے رویوں بارے غور کرنے ہی سے مل سکتے ہیں، برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونے کے لیے آخری ہچکولے کھا رہاتھا تو امریکی سامراج نئے انداز سے طلوع ہونے کے لیے کروٹیں بدل رہاتھا،ایسے میں مشق ستم صرف مسلمان ہی بنے ہوئے تھے- خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے جارہے تھے،عرب اور عجم کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کی جارہی تھیں-مسلمان حکمران اس وقت بھی اپنی اپنی باری کا نتظار کررہے تھے، جس طرح آج کررہے ہیں-اتحاد کی کمی ہی سے فائدہ اٹھاکر برطانیہ مسلمانوں پر چڑدوڑاتھا-
برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بلفور نے1917ء میں اعلان کیا کہ وہ یہودیوں کے لیے فلسطین میں ریاست قائم کریں گے، حیران کن بات یہ تھی کہ فلسطین میں صرف 7 فیصد یہودی آباد تھے،اس وقت یہودیوں کی کل آبادی فلسطین میں 55 ہزار تھی اورفلسطینی مسلمانوں کی آبادی 30 لاکھ تھی جو آبادی کا93 فیصد تھی ،ایسی سر زمین جس پر93 فیصد فلسطینی صدیوں سے رہ رہے تھے وہاں پر برطانیہ نے یہودیوں کے لیے ریاست قائم کرنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا،دسمبر 1917ء سے لے کر 1947ء تک فلسطین برطانوی انتداب کے ماتحت رہاہے،یہی وہ دور ہے جس میں برطانیہ نے اپنی زیر نگرانی یہودیوں کو باہر سے فلسطین میں لایا اور ان کی آبادکاری کا عمل شروع کیا،برطانوی افواج یہودیوں کی عسکری تربیت کا بندوبست بھی کرتی اور ان کے لیے اسلحہ بھی فراہم کرتی رہیں-
برطانوی انتداب اور ان کی نگرانی میں یہودی آبادکاری کے خلاف فلسطینیوں نے مزاحمت کا آغاز کیا،1922ء میں الحاج امین الحسینی کی قیادت میں مزاحمت کی مگر برطانوی افواج کے مقابلے میں ان کی سپاہ بہت کم تھی، اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا اور ملت سلامیہ کو قومیتوں میں تقسیم کردیاگیاتھا،برطانیہ نے اسی تقسیم کا فائدہ اٹھایا –
14مئی 1947ء کو جب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی تھی،233 گاؤں مکمل طور پر فلسطینیوں سے خالی کراکر ا ن کے گھروں میں اسرائیلی آباد کیے جاچکے تھے،1947ء کو 9لاکھ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا-دو لاکھ سے زائد کو شہید کردیا گیا اور لاکھوں کو زخمی کیا گیا-
اسرائیل کے قیام کے اعلان کے ساتھی ہی برطانوی افواج وہاں سے نکل گئیں اور اسرائیل کو امریکہ کی سرپرستی میں دے دیا گیا،تب سے امریکہ اسرائیل کی دیکھ بحال کررہاہے،اس کی ضروریات پوری کررہاہے-
اقوام متحدہ نے دوریاستی نظریہ پیش کیا اور قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ فلسطین کے 47فیصد علاقے پر اسرائیلی ریاست رہے گی اور 53 فیصد علاقے پر فلسطینی اپنی ریاست قائم کریں گے- مگر اسرائیلیوں نے طاقت کے روز پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین کے 78فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا،امریکہ کی مکمل حمایت اسرائیل کو حاصل تھی اس لیے جو بھی قرارداد اقوام متحدہ میں جاتی تھی اس کو امریکہ ویٹو کردیتاتھا اور اسرائیل اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا-
نئے نو آبادیاتی نظام کے تحت اسرائیل اپنے نقشے کو وسعت دینا چاہتاتھا اس لیے یہودیوں نے اپنی پارلیمنٹ جس کو وہ کینسٹ کہتے ہیں کی پیشانی پر بحر سے نہر تک کی عبارت لکھی ہوئی ہے جو آج بھی اس کے عزائم کی نشاندھی کررہی ہے-
اسرائیل کا قیام بھی سپرپاور نے ہی عمل میں لایااور اس کاسہارا بھی سپر پاور ہی ہے،اس لیے اسرائیل نے دھشت گردی جاری رکھی اور 1967ء میں باقی ماندہ فلسطین پر بھی قبضہ کرلیا،اس سات روزہ جنگ میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں زخمی ہوئے اور 4لاکھ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا،اسرائیل نے مسجد اقصی سمیت مصر کے صحرائے سیناء ،شام کی پہاڑیاں گولان اورجنونی لبنان کے علاقے پر قبضہ کر لیا-
اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے ،3سو سے زائد گائوں کو مکمل طور پر خالی کرالیے ،چار سو مساجد شہید ہوئی حتی کے صہیونیوں نے 2اگست 16ء کو مسجد اقصی کو نذر آتش کیاجس سے صلاح الدین ایوبی کا منبر بھی جل کر رکھ کا ڈھیر بن گیا،اسی کے ردعمل میں ا سلامی سربراہی کانفرنس او،آئی ،سی کا قیام عمل میں آیا-صہیونیوں نے فلسطینیوں کے مکانات اور زمنیوں پر قبضہ کرلیا،یہ ساری جارحیت انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی موجودگی میں کی گئی-ظلم اور جبر کے باوجود فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور حق کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی انھوں نے کسی بھی مرحلے پر اسرائیل کو اپنی کمزروی نہیں دکھائی جس کی وجہ سے اسرائیلی خائف ہیں-
اقوام متحدہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ قراردادیں اسرائیل کے خلاف پاس ہوئیں،،مگر اسرائیل نے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا،14ء سے اب تک اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سات سو قراردادیں پاس ہوئی ہیں جو ایک ریکارڈہے-اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سب سے زیادہ قراردادیں پیش ہوئی جن کو امریکہ نے ویٹوکر دیا،سلامتی کونسل میں سب سے زیادویٹو امریکہ نے کیاجو ریکارڈ ہے اور وہ اسرائیل کی حمایت میں کیا-
اسرائیل کے امریکہ کی حمایت کا ناجائزہ فائدہ اٹھاتے ہوئے ظلم کے سارے حربے فلسطینیوں پر آزمائے مگر ان سب کے باوجود فلسطینی باز نہ آئے تو اسرائیل نے مذاکرات کے نام پر نیا کام شروع کیا،سب سے پہلے مصر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہد ہ کیا،اس کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ اوسلو معاہدہ 19ء میں کیا،پھر وائی ریور معاہدہ اس کے ساتھ معاہدوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا-اسرائیل خود معاہد ے کرتا اور خود ہی توڑ دیتا-آخرمیں سابق وزیر اعظم ارئیل شیرون نے تمام معاہدے توڑ کر اوسلومعاہدے کے تحت فلسطینیوں کو جو دو فیصد علاقے ملے تھے وہ بھی واپس لے لیے-
فلسطینیوں نے 18ء میں حماس کے پلیٹ فارم سے انتفاضہ کا آغاز کیا،اس انتفاضہ نے اسرائیل کی چولیں ہلاکر رکھ دیں،اس انتفاضہ نے صہیونیوں کو اسرائیل چھوڑنے پر مجبور کردیا،دو لاکھ یہودی روس واپس آئے جو ہجرت کرکے اسرائیل چلے گئے تھے اسی طرح دیگر ممالک کی طرف بھی چلے گئے اسرائیل کی طرف ہجرت میں نمایا ں کمی آئی،اسرائیل سے بھاگنے والوں میں علی خاندان اور علی آفیسرز کے خاندان تھے جس کی وجہ سے چھوٹے طبقے پر برے اثرات پڑے-
ا مریکہ کی طرف سے ٹرلین ڈالر امداد کے باوجود صہیونی اسرائیل میں رہنا موت کودعوت دینا خیال کرتے ہیں،امریکی سابق صدر جمی کارٹر نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ حما س کومذاکرات میں شامل کیے بغیر اور فلسطینیوں کو ان کا حق دیے بغیر فلسطین میں امن قائم نہیں ہوسکتا-
خود اسرائیلی دانشور اب کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیلی قیام کے پیچھے برطانیہ اور بقا امریکہ کے سہارے قائم ہے،ان کے شعر وادب میں یہ حقیقت شامل کی جارہی ہے کہ اسرائیل جس دن بیساکھیوں کو چھوڑ دے گا یا بیساکھیاں ٹوٹ جائیں گی اس دن اسرائیل پکے ہوئے پھل کی طرح زمین بوس ہوجائے گا-اسرائیل آج تک اگر قائم ہے تو اس کے پیچھے سپر طاقتیں کام کررہی ہے ،اسرائیل آج تک اگر قائم ہے تو اس کے پیچھے ظلم اور جبر کارفرماہے،یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ ظلم پر زیادہ دیر کوئی ملک او ر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا-اسرائیل تیزی کے ساتھ اپنے انجام کی طرف گامزن ہے-