جمعرات کو اسرائیل اپنے قیام کی ساٹھ ویں سالگرہ منارہا ہے مگر عرب مسلمان جو اس کی آبادی کا بیس فیصد سے زائد ہیں ان تقریبات میں شریک نہیں ہوں گے اس ملک میں رہنے والے دس لاکھ تیس ہزار سے زائد مسلمان یہودیوں کے مقابلے میں پسماندہ اور غریب ہیں- انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے مطابق اس روز ہزاروں اسرائیلی عرب اپنے دیہات میں جمع ہو کر اسرائیل کی پیدائش پر سوگ منائیں گے-
نیو یارک ٹائمز کے نمائندے ایتھن برونر سے گفتگو کے دوران ایک معروف عرب ریڈیو جرنلسٹ ایمان قاسم سلیمان نے کہا کہ میں ہرگز اسرائیلی نہیں اگر اسرائیلی اس ملک کو یہودیوں کا وطن کہتے ہیں تو وہ اس سے انکار کرتے ہیں- یاد رہے اسرائیل کے اندر اور وہ دوسرے ملحقہ علاقوں میں فلسطینی مسلمانوں کی تعداد خاصی ہے- عربوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ساٹھ برس کی کوئی بات نہیں اسرائیل کو بالآخر ختم ہونا ہے- ایک اسرائیلی عرب ایڈووکیٹ عبیر قبطی کا کہنا ہے کہ میں اپنے اسرائیلی دوستوں سے کہتا رہتا ہوں کہ یہودی مملکت کا قیام ان کیلئے مفید نہیں ہے-
پورے اسرائیل خصوصاً شمال میں درجنوں ایسے فلسطینی دیہات ہیں جو زیادہ تر بے آباد اور بنجر ہیں- فلسطینی مسلمان ان مقامات میں آباد ہیں جہاں آبادی گنجان ہے انہیں اپنے آبائی گھروں سے نسبتاً بہتر جگہوں پر منتقل ہونے کی اجازت نہیں جبکہ یہودی جہاں چاہیں اپنے گھر تعمیر کرسکتے ہیں- ایک فلسطینی مسلمان جمال عبد الہادی محمد نے گندم اور تربوزوں کے کھیتوں سے پرے ایک کچی سڑک کے کنارے چند ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ میرا گھر تھا جہاں میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا اس نے کہا کہ میری بڑی خواہش ہے اب جبکہ میں 69 برس کا ہوگیا ہوں اس گھر میں دوبارہ آئوں جہاں میرے باپ نے انار لگائے تھے مگر مجھے یہاں منتقل ہونے کی اجازت نہیں-
میرا مقدمہ عدالت میں زیر التواء ہے ہم اپنی اراضی پر کاشت نہیں کرسکتے- جمال نے کہا کہ میری بیٹی ڈاکٹر ہے اور علاج میں یہودیوں اور مسلمانوں میں فرق روا نہیں رکھتی- اسرائیل کی حکومت مجھ سے مختلف سلوک کیوں کرتی ہے- دریں اثناء بائیں بازو کے یہودی عالموں نے کہا ہے کہ عربوں کو نہ تو اپارٹمنٹ اور نہ ہی ملازمتیں دی جائیں- یہودیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ انہیں اسرائیل سے نکال باہر کیا جائے- 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین میں دو ریاستوں عرب اور یہودی کے حق میں قرارداد منظور کی تھی جس پر فلسطینیوں نے مسلح جدوجہد شروع کی جسے یہودیوں نے کچل دیا اس طرح لاکھوں فلسطینی اپنے آبائی گھروں سے ہجرت کر کے اردن، لبنان اور غزہ چلے گئے- ان کے گھر اور دیہات اب تک ویران ہیں- ہجرت کر کے دوسرے علاقوں میں جانے والوں کو واپسی کی اجازت نہیں-
1953ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے ان کی ایک لاکھ بیس ہزار ہیکٹر اراضی اور دیہات کو سرکاری ملکیت میں لے لیا- جمال اور اس کے دو سو دوسرے ساتھیوں نے جو اپنے گائوں کے قریب دوسری جگہ ام العمم میں مقیم ہیں- سپریم کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے-
نیو یارک ٹائمز کے نمائندے ایتھن برونر سے گفتگو کے دوران ایک معروف عرب ریڈیو جرنلسٹ ایمان قاسم سلیمان نے کہا کہ میں ہرگز اسرائیلی نہیں اگر اسرائیلی اس ملک کو یہودیوں کا وطن کہتے ہیں تو وہ اس سے انکار کرتے ہیں- یاد رہے اسرائیل کے اندر اور وہ دوسرے ملحقہ علاقوں میں فلسطینی مسلمانوں کی تعداد خاصی ہے- عربوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ساٹھ برس کی کوئی بات نہیں اسرائیل کو بالآخر ختم ہونا ہے- ایک اسرائیلی عرب ایڈووکیٹ عبیر قبطی کا کہنا ہے کہ میں اپنے اسرائیلی دوستوں سے کہتا رہتا ہوں کہ یہودی مملکت کا قیام ان کیلئے مفید نہیں ہے-
پورے اسرائیل خصوصاً شمال میں درجنوں ایسے فلسطینی دیہات ہیں جو زیادہ تر بے آباد اور بنجر ہیں- فلسطینی مسلمان ان مقامات میں آباد ہیں جہاں آبادی گنجان ہے انہیں اپنے آبائی گھروں سے نسبتاً بہتر جگہوں پر منتقل ہونے کی اجازت نہیں جبکہ یہودی جہاں چاہیں اپنے گھر تعمیر کرسکتے ہیں- ایک فلسطینی مسلمان جمال عبد الہادی محمد نے گندم اور تربوزوں کے کھیتوں سے پرے ایک کچی سڑک کے کنارے چند ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ میرا گھر تھا جہاں میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا اس نے کہا کہ میری بڑی خواہش ہے اب جبکہ میں 69 برس کا ہوگیا ہوں اس گھر میں دوبارہ آئوں جہاں میرے باپ نے انار لگائے تھے مگر مجھے یہاں منتقل ہونے کی اجازت نہیں-
میرا مقدمہ عدالت میں زیر التواء ہے ہم اپنی اراضی پر کاشت نہیں کرسکتے- جمال نے کہا کہ میری بیٹی ڈاکٹر ہے اور علاج میں یہودیوں اور مسلمانوں میں فرق روا نہیں رکھتی- اسرائیل کی حکومت مجھ سے مختلف سلوک کیوں کرتی ہے- دریں اثناء بائیں بازو کے یہودی عالموں نے کہا ہے کہ عربوں کو نہ تو اپارٹمنٹ اور نہ ہی ملازمتیں دی جائیں- یہودیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ انہیں اسرائیل سے نکال باہر کیا جائے- 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین میں دو ریاستوں عرب اور یہودی کے حق میں قرارداد منظور کی تھی جس پر فلسطینیوں نے مسلح جدوجہد شروع کی جسے یہودیوں نے کچل دیا اس طرح لاکھوں فلسطینی اپنے آبائی گھروں سے ہجرت کر کے اردن، لبنان اور غزہ چلے گئے- ان کے گھر اور دیہات اب تک ویران ہیں- ہجرت کر کے دوسرے علاقوں میں جانے والوں کو واپسی کی اجازت نہیں-
1953ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے ان کی ایک لاکھ بیس ہزار ہیکٹر اراضی اور دیہات کو سرکاری ملکیت میں لے لیا- جمال اور اس کے دو سو دوسرے ساتھیوں نے جو اپنے گائوں کے قریب دوسری جگہ ام العمم میں مقیم ہیں- سپریم کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے-