اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ جنگ بندی چاہتی ہے- ہم فلسطینی عوام کے مفاد میں جنگ بندی کریں گے- جنگ بندی کی کوششوں کا مطلب اسرائیلی جارحیت پر خاموشی نہیں ہے- اسرائیل جانتا ہے کہ غزہ پر حملے کی اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی- اسرائیلی دھمکیاں حماس کی قیادت کو خوفزدہ نہیں کرسکتیں- ہم فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے تیار ہیں- یورپی ممالک اس بات پر قائل ہیں کہ حماس کے بغیر قیام امن کا عمل کامیاب نہیں ہوسکتا- حماس سیاسی خیالات کی حامل جماعت ہے- سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ خالد مشعل سے ملاقات حماس کی سیاسی کامیابی ہے-
ان خیالات کا اظہار غزہ میں حماس حکومت کے وزیر داخلہ سعید صیام نے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- انٹرویو کا مکمل متن زائرین کے پیش خدمت ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: اسرائیل سے جنگ بندی کے امور کس طرح جارہے ہیں؟ کیا جنگ بندی ہو رہی ہے؟
سعید صیام: ابھی تک تو جنگ بندی نہیں ہوئی- جنگ بندی کی کوششوں کا مطلب اسرائیلی کارروائیوں پر خاموشی نہیں ہے- جارحیت کے جواب کے لیے فلسطینی عوام کے پاس مزاحمت کا حق باقی ہے- اللہ کے فضل سے مزاحمت کاروں نے اسرائیلی جارحیت کا جواب دیا ہے- جنگ بندی کی کوششوں کے نتائج کے ہم منتظر ہیں-
مرکز اطلاعات فلسطین: جنگ بندی کے متعلق اسرائیل کا کب تک جواب متوقع ہے؟
سعید صیام: یہ بات مصر کے وزیر عمر سلیمان پر منحصر ہے جوثالثی کا کردار ادا کررہے ہیں-انہوں نے فلسطینی گروپوں کا نقطہ نظر سن لیا ہے- اب ہم منتظر ہیں کہ وہ اسرائیل سے کیا جواب لاتے ہیں- جواب کوئی ٹائم فریم مقرر نہیں ہے- ہمیں امید ہے کہ جلد جواب آئے گا-
مرکز اطلاعات فلسطین: جنگ بندی کے حوالے سے اسرائیلی مؤقف میں ابہام ہے- بعض رہنما جنگ بندی کو مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہیں جبکہ بعض راہنماء غیر اعلانیہ جنگ بندی قبول کرنے کی بات کرتے ہیں- دوسری جانب غزہ پر اسرائیلی چڑھائی جاری ہے-کیا جنگ بندی کی کوششیں اس لیے تو نہیں کی جارہی کہ قیام اسرائیل 60 سال کی تقریبات پر امن طریقے سے منعقد ہو جائیں؟ اس منظر نامے پر آپ کا کیا تبصرہ ہے اور کیا حماس اسرائیلی تقریبات کو خراب کرنے کا پروگرام رکھتی ہے؟
سعید صیام: بیانات میں تضاد تو اسرائیل کی فطرت ہے- ہم تو اس ثالث کے ردعمل پر اعتماد کرتے ہیں جو جنگ بندی کرا رہا ہے اور وہ مصر ہے- ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیلی حکومت میں سرکاری سطح پر جنگ بندی کا مطالبہ ہے- اہداف کے قطع نظر اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ جنگ بندی چاہتی ہے- ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اس کے اہداف کیا ہیں- ہم جنگ بندی میں فلسطینی مفاد دیکھتے ہیں- اگر اسرائیل نے جنگ بندی کی پابندی کی تو ہم بھی پابند رہیں گے- اگر اس نے خلاف ورزی کی تو جواب کے لیے ہمارے ہاتھوں میں بھی گولی ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: بعض فلسطینی گروپ جنگ بندی کو پسپائی کی ایک شکل قرار دیتے ہیں جبکہ آپ اسے معرکہ اور مزاحمتی پروگرام کا ایک جزو قرار دیتے ہیں؟
سعید صیام: سب سے پہلے تو غزہ میں حماس ہی کی حکومت ہے- وہ مزاحمت کی قیادت کررہی ہے- حماس حکومت کو علم ہے کہ فلسطینیوں کا مفاد کیا ہے- اس طرح کی باتیں کرنے والوں کا مزاحمت میں کوئی کردار نہیں ہے- وہ صرف اپنی قیمت بڑھانے کے لیے اس طرح کی باتیں کررہے ہیں- ہمیں ان کی باتوں سے کوئی نہیں فرق پڑتا کیونکہ ہم فلسطینی عوام کی نبض کے ساتھ چل رہے ہیں- ہمیں فلسطینیوں کے احساس کا علم ہے- جنگ بندی پسپائی نہیں ہے- تمام گروپوں نے متعدد بار جنگ بندی کی ہے- ہماران اعلان ہے کہ جس کے پاس فلسطینیوں کے مسائل کا حل ہے وہ آگے آئے-
مرکز اطلاعات فلسطین: اسرائیلی مبہم مؤقف کی روشنی میں جنگ بندی نہ ہونے کا بھی امکان ہے- بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق غزہ پر موسم گرما بہت بھاری ہے- اسرائیل غزہ پر وسیع پیمانے پر چڑھائی کا ارادہ رکھتا ہے- حماس کی قیادت بالخصوص اسماعیل ھنیہ، محمود الزھار اور آپ اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر ہیں- اس منظر نامے کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
سعید صیام: جنگ بندی ہونے اور نہ ہونے کے امکانات برابر ہیں- ہم نے کہا ہے کہ اگر وہ جنگ بندی کی پابندی کریں گے تو ہم بھی پابندی کریں گے- اگر جنگ بندی ناکام ہوگئی تو مزاحمت ہمارا جائز حق ہے- ہم فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے تیار ہیں- اسرائیلی دھمکیاں ہمیں خوفزدہ نہیں کرسکتیں- اسرائیل کو معلوم ہے کہ غزہ پر حملے کی اسے بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی- اسرائیلی جارحیت کا جواب مزاحمت ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: رفح کراسنگ کھولنے کے حوالے سے متضاد خبریں ہیں- جنگ بندی کی پیشکش مسترد ہونے کی صورت میں رفح کراسنگ نہیں کھلے گی- کیا اس بارے میں کوئی مصری وعدہ ہے؟
سعید صیام: ہم نے سرکاری طور پر آٹھ نکات کی صورت میں مصری حکومت کو درخواست دی ہے- اسرائیل کے رفح سرحد نہ کھولنے کی صورت میں مصر اسے کھولے گا- مصری وزیر عمر سلیمان نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے رفح کراسنگ کھولنے کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تو قاھرہ رفح کراسنگ کو کھولے گا-
مرکز اطلاعات فلسطین: غزہ میں حماس کی حکومت کے یورپی ممالک سے روابط کیسے ہیں؟
سعید صیام: کچھ عرصہ سے یورپی ممالک کے حماس سے رابطے ہیں اور سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر راہنماؤں کے درمیان ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں- یہ ممالک اس بات پر قائل ہیں کہ حماس کو کنارے میں لگانا ممکن نہیں ہے- حماس کے بغیر علاقے میں قیام امن کا عمل کامیاب نہیں ہوسکتا- ان ممالک پر یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل کی غزہ کے خلاف ناکہ بندی ناکام ہے- حماس کے متعلق معلومات مخالف فریقوں سے لی جاتی تھی- لیکن جب ان کی حماس کے راہنماؤں سے براہ راست ملاقات ہوئی تو انہیں حماس کے افکار اور اس کی اعتدال پسندی کے بارے میں جان کر بڑی حیرانی ہوئی- بالخصوص سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے حماس سے ملاقات کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ حماس ملک کی آزادی کی تحریک ہے اور اس کے مکمل سیاسی خیالات ہیں- اس کے بعد حماس کی حکومت سے یورپی ممالک کے رابطے مزید بڑھ گئے-
مرکز اطلاعات فلسطین: کیا ان روابط کے کوئی نتائج سامنے آئے ہیں؟
سعید صیام: ابھی نتائج کے بارے میں بات نہیں کرسکتے لیکن میرے خیال میں یہ روابط حماس کے خلاف حصار بندی کو توڑنے میں ایک قدم ثابت ہوں گے-
مرکز اطلاعات فلسطین: جمی کارٹر کے دورے کے متعلق کہا جارہا ہے کہ حماس نے انہیں ان کی حیثیت سے زیادہ پروٹوکول دیا جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ سابق امریکی صدرسے ملاقات میں کوئی فائدہ نہیں؟
سعید صیام: ہم نے جمی کارٹر سے ملاقات کا مطالبہ نہیں کیا تھا- اس طرح کی باتیں کرنے والے ملاقات کی حیثیت کو کم کرنا چاہتے ہیں- اگر یہ ملاقات اتنی ہی غیر اہم ہوتی تو اسرائیلی اور امریکی کیوں سیخ پا ہوتے بلکہ یہ ملاقات حماس کی سیاسی کامیابی ہے اور خالد مشعل سے ملاقات کے بعد جمی کارٹر نے جو بیانات دیے ہیں اسے بھی ہم حماس کی سیاسی کامیابی قرار دیتے ہیں-
مرکز اطلاعات فلسطین: مغوی اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے مسئلے میں یورپی کوششوں کی کیا حقیقت ہے؟ گیلاد شالیت کے مسئلے کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟
سعید صیام: یہ بات صحیح ہے بالخصوص اسرائیلی مغوی فوجی کی رہائی کے لیے یورپی ممالک کے رابطے ہیں لیکن اس مسئلے کا حل آسان نہیں ہے، کیونکہ ہمیں اسرائیل کی چال بازیوں کا علم ہے- گیلاد شالیت کے مسئلے کے متعلق کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ ہم کٹھے مطالبے پر مصر ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ ان قیدیوں کو رہا کیا جائے جو بڑی مدت سے اسرائیلی جیلوں میں ہیں-
مرکز اطلاعات فلسطین: اسرائیلی وزیر خارجہ تسیبی لیفنی نے اپنے دورے کے دوران قطر کے حکام کو حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ خالد مشعل کے نام دھمکی آمیز پیغام دیا- کیا یہ صحیح ہے؟
سعید صیام: مجھے اس پیغام کے بارے میں علم نہیں- البتہ حماس کے راہنماء کو ماضی میں بھی نہ صرف دھمکیاں دی گئیں بلکہ اس پر عمل بھی کیا گیا- خالد مشعل کو 1997ء میں عمان میں نشانہ بنایا گیا جس میں وہ محفوظ رہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: فتح اور حماس کے درمیان غیر اعلانیہ مذاکرات کی خبریں ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ بعض مراحل طے بھی کرلیے گئے ہیں- اس میں کتنی صداقت ہے؟
سعید صیام: یہ بات صحیح نہیں ہے- ہمیں معلوم ہے کہ فتح کے بعض راہنماؤں کی حماس سے مذاکرات کی خواہش ہے- وہ حماس سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور اس بارے میں فتح کے اندر آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں- البتہ یہ کہنا کہ غیر اعلانیہ مذاکرات جاری ہیں اور کچھ مراحل بھی طے کرلیے گئے ہیں صحیح نہیں ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: چند ماہ کے بعد محمود عباس کی مدت صدارت ختم ہونے والی ہے- کیا صدارتی انتخابات کی صورت میں آپ اس میں حصہ لیں گے؟
سعید صیام: ہم نے صدر کی قانونی حیثیت کا احترام کیا ہے اور ہم نے ان سے اب تک آئین اور قانون کے مطابق تمام معاملات کیے ہیں- ان کی مدت صدارت کے ختم ہونے کے موقع پر بھی آئین اور قانون کے مطابق معاملہ کریں گے- صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے متعلق جماعت فیصلہ کرے گی- ابھی اس بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: غزہ میں امن و امان کی صورتحال کیسی ہے؟ کیا ابھی بھی ایسے گروہ ہیں جو بم دھماکے کررہے ہیں؟
سعید صیام: میرے خیال میں چودہ جون 2007ء کے بعد کے پرامن حالات کا چودہ جون سے قبل کے حالات سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا- اب غزہ میں شہری امن محسوس کرتے ہیں- غزہ میں نے والے غیر ملکی وفود اور تنظیمیں یہاں پر امن محسوس کرتی ہیں- مجرموں کو پکڑنے میں ہم نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے- ہم نے بہت سے ایسے گروہ پکڑے ہیں جو غزہ میں ملازمین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے فلسطینی صدر کی اتھارٹی سے رابطے میں تھے-
مرکز اطلاعات فلسطین: غزہ میں حماس حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ کو خودکش حملے میں ہلاک کرنے کی سازش تیار کرنے والے گرفتار گروہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ متعدد افراد کو رہا کردیا گیا ہے- اس میں کتنی صداقت ہے اور مجرموں کو کب کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا؟
سعید صیام: یہ بات بغیر تحقیق کے کی گئی ہے- اسماعیل ھنیہ کو ہلاک کرنے کی سازش میں ملوث کسی فرد کو رہا نہیں کیا گیا- صرف اس ایک نوجوانوں کو رہا کیا گیا ہے جسے دھوکے سے سازش میں شامل کیا گیا تھا- مجرموں نے اس سے بیگ کوگراؤنڈ میں لے جانے کا کہا تھا اور وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس بیگ میں دھماکہ خیز مواد ہے- اسے عدالت نے رہا کیا ہے اور اس کی عمر بھی اٹھارہ سال سے کم ہے-
مرکز اطلاعات فلسطین: یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ اسماعیل ھنیہ کے قتل کی سازش اسرائیل نے تیار کی ہو جو فلسطینیوں کے ہاتھوں یہ کارروائی کرنا چاہتا ہو- آپ کے خیال میں اسرائیلی خفیہ اداروں کا بھی اس سازش میں ہاتھ تھا- اس سازش کے پس پردہ کون تھا؟
سعید صیام: ہم اس بات کو بعید از قیاس تصور نہیں کرتے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ہاتھوں اسماعیل ھنیہ کو قتل کرانا چاہتا ہو تا- لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ مجرموں کے اعترافات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش کے پیچھے فلسطینی اتھارٹی کے لوگ تھے-
مرکز اطلاعات فلسطین: غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں اضافے کی وجہ سے عوام کی طرف سے غزہ میں اسرائیلی ایجنٹوں کی موجودگی کی باتیں ہو رہی ہیں- کیا غزہ میں اسرائیلی ایجنٹوں کے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کے لیے کارروائی کی گئی ہے؟
سعید صیام: اسرائیلی ایجنٹوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کام جاری ہے- بڑے بڑے ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کی گئی- مزاحمت کاروں کے مقابلے کے لیے نئی نئی سازشوں کے نقشے پکڑے گئے ہیں-
