پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیل اور فلسطین میں عوام کی اکثریت قیام امن کی خواہاں

منگل 6-مئی-2008

اسرائیل اور فلسطین میں ایک طرف جہاں انتہا پسند یہ سمجھتے ہیں کہ وقت ان کے ساتھ ہے ، وہیں دونوں طرف ایسی اکثریت بھی ہے ، جو  پس میں لڑنے کے بجائے ‘‘قیام امن’’ کے لئے مل کر لڑنا چاہتی ہے- اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کا تعلق ایک ہی سرزمین سے ہے اور دونوں کو اقتدار اعلی اور خود اختیار عزیز ہے- اس لحاظ سے دونوں کو تشدد اور نفرت کے دائرے سے باہر نکلنے کے لیے تمام تر خامیوں کے باوجود دو مملکتی حل سے ہی رجوع کرنا ہوگا-
یہ خیال امریکی ٹاسک فورس برائے فلسطین کے صدر زیاداصالی نے ظاہر کیا ہے- ان کے مطابق وقت  گیا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں یہ ادراک کریں کہ آیا وہ بدستور ماضی گرفتہ رہیں گے یا انہیں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے اس سے باہر نکلنا چاہیے- یہ اطلاع عرب نیوز نے دی ہے- زیاد کا کہناہے کہ اسرائیلی جہاں یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی ایک دن تھک جائیں گے یا ان کی نئی نسل اپنی قومی شناخت بھول جائے گی اور پورے علاقہ پر ان کا مکمل کنٹرول ہوجائے گا، وہیں بعض سخت گیر فلسطینیوں کو یہ وہم ہے کہ اسرائیل کا مصنوعی غیر ملکی تسلط انجام کا ر ایک دن ختم ہوجائے گا-
 اس سوچ نے دونوں کے لئے وقت کو ایک بڑا ہتھیار بنادیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ہرگز کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے- زیادکا کہنا ہے کہ بہرحال اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہی اپنی تصوراتی دنیا آباد کرنے کے لئے نسل درنسل کی قربانی دینے کے متحمل نہیں حالانکہ اسرائیلی آبادکاری میں توسیع اور فلسطینی انتہا پسندوں کو دہشت زدہ کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے دوسری طرف فلسطینی انتہاپسندگروپ بھی اسرائیل کو یہ سوچنے پر مجبور کررہے ہیں کہ  آیا فلسطینی کبھی اسرائیل کو تسلیم بھی کریں گے اور امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے پر راضی ہوں گے-
 انہوں نے کہاکہ اسرائیلی  آبادکاری سے نہ صرف دو مملکتی بنیاد پر امن قائم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہاہے بلکہ مقبوضہ علاقوں پر اسرائیلی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے جو مملکت فلسطین کے قیام کے عمل کو بری طرح پیچیدہ بناتی جا رہی ہے اور فلسطینیوں میں یہ اعتماد متزلزل کررہی ہے کہ اسرائیل واقعی قیام فلسطین سے دلچسپی رکھتاہے-
 زیاد کا کہنا ہے کہ اس پس منظر میں دونوں طرف سے عوام کو فیصلہ کرناہے کہ وہ انتہا پسندوں کے ایجنڈوں کا شکار رہیں یا اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیں- دونوں کو حقیقی اور تصوراتی ماضی سے باہر نکل کر اس حقیقت کا ادراک کرناہوگا کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کو ایک ہی چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے دو مملکتی بنیاد پر لڑائی کا خاتمہ- انہوں نے کہاکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ کی شکل میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ لڑائی اب ان دوطاقتوں کے بیچ ہے جن میں سے ایک لڑائی ختم کرکے امن کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے اور دوسری دشمنی قائم رکھنے پر تلی ہے-
 اس لحاظ سے اسرائیل اور فلسطین دونوں حلقوں میں جو لوگ دو آزاد خود مختار ملکوں میں ایک دوسرے کے وقار اور حق خود اختیاری کو تسلیم کرنے کے حق میں ہیں وہ مشترکہ مقاصد کے حامل ہیں- اپنے قیام کے 60سال مکمل کرنے والے اسرائیل جو ٹیکنالوجی اور سیاسی طور پر ایک جدید اور مخلوط  آبادی والا معاشی طور پر خوشحال ملک ہے اسے سلامتی اور اقتصادی ترقی کے ساتھ ایک پر امن ملک ہونے کا حق حاصل ہے اور فلسطین بھی کسی لحاظ سے اس کم کے مستحق نہیں-

مختصر لنک:

کاپی