اسرائیل نے ایک طرف غزہ کی پٹی میں معاشی ناکہ بندی مسلط کر کے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے تو دوسری جانب غرب اردن میں رفاعی اداروں پر پابندی عائد کر کے غرباء، مساکین اور یتیموں کو دانے پانی سے محروم کردیا ہے غرب اردن میں جہاں گو کہ حماس کی حکومت نہیں لیکن شہریوں کے دل حماس کے ساتھ ہیں-
حماس مخالف جماعت فتح نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسرائیل سے ملکر غزہ میں حماس کی اس محبت کو ختم کرنے کی کوششیں کیں- چنانچہ غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور دیگر مستحقین کی مدد کرنے والے ایک سو سے زائد خیراتی ادارے بند کردیئے- اس طرح فلسطینی اتھارٹی خود ہی اپنی رعایا کے منہ سے لقمہ چھیننے کی مرتکب ہوئی- اسرائیل نے جب دیکھا کہ وہ فلسطینی اتھارٹی اور فتح کے کندھوں پر بندوق رکھ کر گولی چلا سکتی ہے تو اس نے یہ موقع ضائع کیے بغیر غرب اردن کی ایسی ڈسپنسریوں جہاں شہریوں کو مفت یا کم سے کم قیمت پر ادویات مل رہی تھیں بھی بند کرانے کا مطالبہ کردیا ہے-
فتح کی حکومت نے یہ کام اپنا فریضہ سمجھ کر انجام دیا- اسی طرح اسرائیل نے غرب اردن میں غزہ کی طرف پر گو کہ مکمل نہیں لیکن جزوی ناکہ بندی کے لیے فوج تعینات کی- رواں سال 26 فروری کو قابض اسرائیل نے غرب اردن کے تمام تجارتی راستے، بڑی بڑی مارکیٹوں اور تجارتی مراکز کو بند کردیا گیا- کچھ دنوں کے بعد فتح کی کوششوں سے سیکورٹی میں نرمی تو دی گئی لیکن کڑی نگرانی کے ذریعے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور جہاد اسلامی کے لوگوں کو کام کرنے سے روک دیا-
اسی طرح کا ایک حربہ چند دن قبل الخلیل میں آزمایا گیا- اسرائیلی فوج نے غرب اردن میں مفت تعلیم فراہم کرنے والے اداروں پر بھی چڑھائی کی چنانچہ درجنوں ایسے ادارے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کررہے تھے- اسرائیل نے حملہ کر کے الخلیل کی لائبریریوں 18000 کتابیں بھی قبضے میں لے لیں- اس طرح اسرائیل نے فتح پارٹی اور فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ ڈالا کہ وہ غرب اردن کے چار ہزار سرکاری ملازمین کی چھان بین کر کے اس میں حماس سے وابستہ عناصر کو نکال باہر کریں- چنانچہ فتح جو پہلے ہی حماس کے بارے میں خار کھاتے ہیں نے بھی اس تجویز پر عمل درآمد شروع کردیا-
حماس مخالف جماعت فتح نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسرائیل سے ملکر غزہ میں حماس کی اس محبت کو ختم کرنے کی کوششیں کیں- چنانچہ غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور دیگر مستحقین کی مدد کرنے والے ایک سو سے زائد خیراتی ادارے بند کردیئے- اس طرح فلسطینی اتھارٹی خود ہی اپنی رعایا کے منہ سے لقمہ چھیننے کی مرتکب ہوئی- اسرائیل نے جب دیکھا کہ وہ فلسطینی اتھارٹی اور فتح کے کندھوں پر بندوق رکھ کر گولی چلا سکتی ہے تو اس نے یہ موقع ضائع کیے بغیر غرب اردن کی ایسی ڈسپنسریوں جہاں شہریوں کو مفت یا کم سے کم قیمت پر ادویات مل رہی تھیں بھی بند کرانے کا مطالبہ کردیا ہے-
فتح کی حکومت نے یہ کام اپنا فریضہ سمجھ کر انجام دیا- اسی طرح اسرائیل نے غرب اردن میں غزہ کی طرف پر گو کہ مکمل نہیں لیکن جزوی ناکہ بندی کے لیے فوج تعینات کی- رواں سال 26 فروری کو قابض اسرائیل نے غرب اردن کے تمام تجارتی راستے، بڑی بڑی مارکیٹوں اور تجارتی مراکز کو بند کردیا گیا- کچھ دنوں کے بعد فتح کی کوششوں سے سیکورٹی میں نرمی تو دی گئی لیکن کڑی نگرانی کے ذریعے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) اور جہاد اسلامی کے لوگوں کو کام کرنے سے روک دیا-
اسی طرح کا ایک حربہ چند دن قبل الخلیل میں آزمایا گیا- اسرائیلی فوج نے غرب اردن میں مفت تعلیم فراہم کرنے والے اداروں پر بھی چڑھائی کی چنانچہ درجنوں ایسے ادارے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کررہے تھے- اسرائیل نے حملہ کر کے الخلیل کی لائبریریوں 18000 کتابیں بھی قبضے میں لے لیں- اس طرح اسرائیل نے فتح پارٹی اور فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ ڈالا کہ وہ غرب اردن کے چار ہزار سرکاری ملازمین کی چھان بین کر کے اس میں حماس سے وابستہ عناصر کو نکال باہر کریں- چنانچہ فتح جو پہلے ہی حماس کے بارے میں خار کھاتے ہیں نے بھی اس تجویز پر عمل درآمد شروع کردیا-