چهارشنبه 30/آوریل/2025

مسئلہ فلسطین کا قابل قبول حل کیسے ممکن ہے؟

منگل 22-اپریل-2008

امریکی حکومت کی گزشتہ نصف صدی سے یہ خواہش چلی آرہی ہے کہ وہ اس کے حل کا کریڈٹ حاصل کرے، لیکن اس کی عملی صورت یہ ہو کہ اس کے حل کے لیے اسرائیل کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے اور فلسطینی عوام مشرق وسطی میں اسرائیل کے وجود، اس کی موجودہ ہئیت اور کردار کو جوں کا توں تسلیم کرتے ہوئے اس کے زیر سایہ ایک طفیلی ریاست کے طور پر نیم خودمختار قسم کی فلسطینی ریاست کو قبول کرلیں، مگر ایسا نہ کوئی حل فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول ہے اور نہ ہی عرب دنیا کے باشعور عوام ایسے کسی حل کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں-
 فلسطینی عوام کی بڑی اکثریت جن کی سیاسی نمائندگی اس وقت حماس اور حزب اللہ کررہی ہے، اسرائیل کے وجود کو ایک جائز ریاست کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور اصولی اور اخلاقی طور پر ان کا یہ مؤقف درست ہے، لیکن دیگر فلسطینی سیاسی حلقے اور بعض عرب ممالک جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں، ان کا مؤقف بھی یہ ہے کہ اسرائیل کے لیے جو حدود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی طے کرچکی ہے، وہ ان حدود میں واپس جائے اور اس نے 1967ء کے بعد جن عرب علاقوں پر قبضہ کیا ہے، انہیں خالی کردے تاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام عمل میں لایا جاسکے، لیکن اسرائیل اس کے لیے کسی صورت میں بھی تیار نظر نہیں آتا-
وہ اپنی اس ضد پر بدستور قائم ہے کہ وہ اب تک جو کچھ بھی کرچکا ہے، اس سب کچھ کو جائز قرار دیا جائے اور اس کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر اسی کی شرائط کے مطابق ایک ڈھیلی ڈھالی فلسطینی ریاست قائم کر کے دنیا کو بتادیا جائے کہ فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے وعدے کے مطابق ایک آزاد ریاست دے دی گئی ہے- ظاہر بات ہے کہ اس کھلی دھاندلی کو دنیا کا کوئی بھی باشعور شخص فلسطینیوں کے ساتھ انصاف قرار نہیں دے گا، مگر امریکہ کی ہر ممکن کوشش یہ ہے کہ اسرائیل کی اس خواہش کو کسی نہ کسی طرح عملی جامہ پہنادیا جائے-
فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی اس کھلی دھاندلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حماس ہے، جو ایک مضبوط عسکری قوت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طاقت بھی ہے اور گزشتہ انتخابات میں فلسطینی عوام نے حماس کو اپنی سیاسی نمائندگی کا حق دے کر ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے حوالے سے اپنے مؤقف اور رجحانات کا واضح طور پر اظہار کردیا ہے- اس پس منظر میں صدر بش کا حالیہ دورۂ مشرق وسطی کیا فی الواقع فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے ہے یا وہ اس کے ذریعے امریکہ کے اس سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں اپنی پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جلد ہی سامنے آجائے گا- دانشور سیاسی اور سفارتی حلقوں میں اس کے بارے میں جو کچھ سوچا جارہا ہے، اس حوالے سے ایک رپورٹ عرب اخبار نے اپنی سات جنوری 2008ء کی اشاعت میں شائع کی ہے-
 رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لبنان میں متعین برطانوی سفیر محترمہ فرانسسزگائی نے ایک سیمینار میں ’’برطانوی و اسلامی تعلقات تصادم سے اخوت پر مبنی‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’فلسطین میں ہمارے پیش روئوں نے جو غلطیاں کی ہیں، ان کو سدھارنا ہمارے لیے ناممکن ہے، لیکن عدل و انصاف پر مبنی امن و سلامتی کے لیے کوشش کرنا ہمارے لیے یقینا ممکن ہے، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کو ایک مؤثر طاقت نہیں سمجھا جاتا-‘‘ اس سلسلے میں محترمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیگر ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ سرزمین فلسطین کا دورہ وہاں کے عوام کی ذلت و خواری کو دیکھنے اور سمجھنے کی نیت سے اور اس نیت سے کریں کہ ایسی پالیسی اختیار کی جاسکے، جس سے اہل فلسطین اس صورتحال سے باہر آجائیں-‘‘
اس موقع پر بیروت کے ایک سابق سفیر سمیر خوزی نے محترمہ فرانسسز گائی سے سوال کیا کہ وہ حکومت برطانیہ کو اس بات کے لیے کیسے برحق قرار دے سکتی ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ باہمی تعامل کے لیے کوشاں ہے، جبکہ اس نے نہ تو حماس سے گفتگو کی ہے اور نہ ہی حزب اللہ سے؟ اس کے جواب میں برطانوی سفیر نے کہا کہ ’’میں آپ کی بات سے متفق ہوں، لیکن ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں-‘‘
برطانیہ کی ایک ذمہ دار سفارتکار خاتون نے جو لبنان میں برطانیہ کی سفارت کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں، ان چند جملوں میں بہت کچھ کہہ دیا ہے اور سفارتی زبان میں مسئلہ فلسطین کی موجودہ معروضی صورتحال کو پوری طرح واضح کردیا ہے، اس کے باوجود اگر دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امریکہ فلسطین کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنے میں سنجیدہ ہے تو اس فریب کاری پر افسوس کے اظہار کے سوا اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے-
خدا جانے اس موقع پر محترمہ فرانسسز گائی سے کسی نے یہ سوال کیا یا نہیں، البتہ اگر ان تک کسی طرح یہ سوال پہنچ سکے تو ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ پیش روئوں کی غلطیوں کا اعتراف ایک اچھی بات ہے اور انہیں سدھار نے میں بے بسی کا اعتراف بھی حقیقت پسندی کہلائے گا، لیکن غلطیوں کی اصلاح کیے بغیر ’’عدل و انصاف پر مبنی امن و سلامتی‘‘ کا حصول آخر کس طرح ممکن ہوگا؟

مختصر لنک:

کاپی