پنج شنبه 01/می/2025

فتح کے مرکزی راہنماء جمال عایش کا انٹرویو

منگل 22-اپریل-2008

فلسطین اسلحہ کے زور پر چھینا گیا اور اس کی آزادی اسلحہ کی طاقت سے ہی ممکن ہے- فتح کے نوجوان شیخ محمد یاسین کے گھر دینی تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے- فتح اور حماس دونوں کو چاہیے کہ وہ اس نظریہ کے لیے کام کریں جس کے لیے وہ وجود میں آئی ہیں- یاسر عرفات کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد فتح کی باگ دوڑ امریکی انتظامیہ کے دوستوں کے ہاتھوں میں آگئی-
ان خیالات کا اظہار فتح کے بزرگ راہنماء جمال عایش نے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- جمال عایش ساٹھ کی دہائی میں فتح کے اہم راہنماء رہے ہیں- وہ فتح کے ایک عسکری ونگ کے بانی ہیں- اس وقت وہ فتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور فلسطینی سعودی دوستانہ کمیٹی کے سربراہ ہیں- جمال عایش 1939ء میں مجدل میں پیدا ہوئے- انہوں نے سانحہ قیام اسرائیل اور 1967ء کی جنگ دیکھی ہے- انہوں نے اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں- ان کے خیال میں حماس ایک اسلامی عوامی مزاحمتی تحریک ہے اور جدوجہد آزادی آزادی فلسطین کا تسلسل ہے جو فتح نے قابض اسرائیل کے خلاف کی ہے-
جمال عایش کے انٹرویو کا متن زارئین کے لیے پیش خدمت ہے-
پی آئی سی: یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ جدوجہد آزادی فلسطین میں فتح کا قائدانہ کردار رہا ہے لیکن اب وہ اس میدان سے باہر نکل گئی ہے- اس تبدیلی کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ اصل خرابی کہاں پیدا ہوئی؟
جمال عایش: فتح ہی آزادی فلسطین کی منظم جدوجہد کی قائد ہے- اس نے ہی قابض اسرائیل کے خلاف موجودہ فلسطینی انقلاب برپا کیا ہے- وہ جدوجہد آزادئ فلسطین کے میدان سے باہر نہیں نکلی بلکہ اس میدان میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس)، اسلامی جہاد اور دوسری مزاحمتی تحریکیں اس کے ساتھ شامل ہوئی ہیں-
 فتح ابھی بھی ’’شہدائے اقصی‘‘ اور دوسرے ناموں سے جدوجہد آزادئ فلسطین کے میدان میں موجود ہے-
پی آئی سی: بڑی مشکل یہ ہے کہ فتح اس حقیقت یعنی مینڈیٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو فلسطینی عوام نے حماس کو دیا ہے- کیا فلسطینیوں کے اندرونی اختلافات کا سبب یہی نہیں ہے؟
جمال عایش: عربوں کا نظام خاندانی ہے اور ہم عرب ہیں- خاندانی نظام کی خواہ کتنی ہی خوبیاں کیوں نہ ہوں لیکن اس کی بڑی خامی یہ ہے کہ قائدین نہیں چاہتے کہ کوئی ان سے آگے بڑھے یا ان کے ساتھ شریک ہو-
قیادت دو طرح کی ہوتی ہے خواہ وہ انفرادی قیادت ہو یا انتظامی قیادت ہو- ایک ایسی قیادت ہوتی ہے جو اس سوچ اور نظریے کے لیے کام کرتی ہے جس کے لیے تنظیم یا قیادت وجود میں آئی ہے- دوسری وہ قیادت ہے جو نظریہ اور سوچ اپنے لیے مسخر کرلیتی ہے- وہ نظریہ کے لیے کام نہیں کرتی بلکہ نظریہ اور سوچ ان کی خدمت میں ہوتی ہے- فتح اور حماس دونوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اس نظریے کے لیے مخلص ہو کر کام کریں جس کے لیے یہ دونوں تحریکیں وجود میں آئی ہیں-
پی آئی سی: موجودہ حالات میں کہا جاتا ہے کہ فتح سے تعلق رکھنے والے کارکن کی پہچان یہ ہے کہ وہ حماس سے نفرت کرتا ہے- آپ کیا کہیں گے؟
جمال عایش: فتح کے کارکن کی پہچان بندوق ہے وہ کہتا ہے میری شناخت میری بندوق ہے- فتح کے زیر انتظام ریڈیو کے افتتاحی کلمات قرآن کریم کی یہ آیت تھی- ’’انافتحنا لک فتحاً مبیناً‘‘
جب باسم صلاح مرحوم نے ’’بغیر شناخت فلسطینی‘‘ نامی کتاب شائع کی تو میں نے ان سے کہا کہ کیا فلسطینی کی شناخت نہیں ہے؟ تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ فلسطینی کی کیا شناخت ہے؟ تو میں نے جواباً کہا کہ اسلام اور عربی ہونا – حقیقی فتح سے تعلق رکھنے والا حماس سے نفرت کرتا ہے اور نہ ہی حقیقی حماس سے تعلق رکھنے والا فتح کو ناپسند کرتا ہے- جن لوگوں نے ہمارا وطن چھینا ہے اور ہمیں بے گھر کیا ہے وہ ہماری نفرت اور دشمنی کے زیادہ مستحق ہیں- ہمیں آپس کی بجائے ان سے نفرت کرنا چاہیے-
پی آئی سی: اگر آپ آگے بڑھیں تو فتح کے قبلہ کو درست کرنے کے لیے کن باتوں پر توجہ دیں گے؟
جمال عایش: میں اسی راستے پر چلوں گا جو شروع میں اختیار کیا گیا- فلسطین اسلحہ کی طاقت سے چھینا گیا ہے- فلسطین کی واپسی اسی ذریعے سے ہوگی جس ذریعے سے اسے چھینا گیا ہے- آزادیء فلسطین مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے- فتح کے نوجوان عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد دینی تعلیم و تربیت کے شیخ محمد یاسین شہید کے گھر جایا کرتے تھے- فتح نے چین، ویت نام، کوریا اور الجزائر کے انقلابات کے تجربہ سے استفادہ کیا جبکہ اسے اسلامی انقلاب اور اسلامی اخلاق کے تجربے کو سرفہرست دیکھنا چاہیے تھا-
پی آئی سی: تحریک انتفاضہ شروع ہونے کے بعد فتح کی قیادت کے رویے میں تبدیلی واقع ہوئی بالخصوص مرحوم یاسر عرفات کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد امریکی انتظامیہ کے دوستوں کے ہاتھوں میں فتح کی باگ دوڑ آگئی- آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
جمال عایش: فتح شروع ہی سے اسلامی، قومی، بائیں بازو اور لبرل رجحانات رکھنے والے لوگوں کا مجموعہ رہی ہے- فتح اور اسلامی رجحان پر شدید بین الاقوامی دبائو فتح کی موجودہ مشکل کا سبب ہے- لیکن درست ہی درست ہوتا ہے جبکہ غلط درست نہیں ہوسکتا-
پی آئی سی: غزہ کے واقعات کی تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ جاری کی ہے- جس میں کہا گیا ہے کہ فتح کی قیادت جو فیصلے کرتی ہے اس پر عمل نہیں ہوتا- سوال یہ ہے کہ کیا فتح کی قیادت حقیقی قیادت ہے اور کشتی کا ملاح کون ہے؟
جمال عایش: کشتی کے ملاح اس وقت فلسطینی صدر محمود عباس ہیں اور ان کے گرد ایسے مشیروں کا جتھہ ہے جو بیرونی طاقتوں کی طرف مائل ہے- جب اتھارٹی قابض کے پاس ہو تو اس وقت میں کہنا ناممکن ہے کہ سو فیصد آزادانہ فیصلے کیے جاتے ہیں- منتخب قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے انتظامی امور سے دیگر اثر و رسوخ کے تابع ہیں-

مختصر لنک:

کاپی