سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی جانب سے حماس کی قیادت سے ملا قات کے دانشمندانہ فیصلے کو مشرق وسطی میں درست سمت قدم قرار دیا گیا ہے جبکہ امریکی پالیسی اپنی المناک موت کو پہنچ چکی ہے – سیکرٹری خارجہ کنڈو لیزارائس یہ ظاہر کرتی رہی ہے کہ ادھر ادھر چند تبدیلیاں لانے سے اسرائیل کی نسلی امتیاز کی پالیسی کو قابل قبول بنایا جاسکے گا، کنڈو لیزارائس نے اسرائیلیوں کو اس پر رضا مند کرلیا کہ مغربی کنارے کی پانچ سو رکاوٹوں میں سے چند ایک کو ختم کردیا جائے لیکن اسی اثناء میں اسرائیلی قابض فوج نے غزہ کی پٹی میں ایندھن کی فرہمی معطل کردی اور پندرہ لاکھ افراد کامحاصرہ کرلیا ، مغربی کنارے میں غیر قانونی طور پر بستیوں کی تعمیر شروع کردی اور غزہ کی پٹی پر ایف سولہ سے حملہ کردے جس سے مرد ، عورتیں اور بچے شہید ہوئے ، افسوس، فلسطینیوں کے لئے ’’یہ روز مرہ کا معمول ‘‘ ہے-
گزشتہ ہفتے نحال اوزپر ہونے والے حملے سے اہل مغرب کو پریشان تو نہیں ہونا چاہیے- فلسطینی ایک ایسی جنگ کامقابلہ کررہے ہیں، جو اسرائیل اپنی تمام تر قوت کے ساتھ لڑ رہاہے، اس کے پاس ہائی ٹیکنالوجی رکھنے والی فوج بھی ہے -اس کے پاس اقتصادی قوت بھی ہے اور اس کے پاس ایسی عدلیہ بھی موجود ہے کہ جو ان تمام غیر قانونی اقدامات کو قانونی قرار دینے کے لئے تیار بیٹھی ہے- ہمارے لئے صرف ایک راستہ کھلا ہے اور وہ مسلح مزاحمت کا ہے – پینسٹھ برس قبل وارسا کے یہودی ناڑہ خانوں (Gholtes)کے افراد نے اپنی قوم کے دفاع کا عزم کیاتھا، ہم اہل غزہ ،جو دنیا کی سب سے بڑی کھلی فضا والی جیل میں رہ رہے ہیں، یہ اعلان اب کرسکتے ہیں امریکہ اسرائیل اتحاد نے جنوری 2006ء میں ہونے والے انتخابات کی نفی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جب فلسطینی لوگوں نے ہماری جماعت کو مینڈیٹ سے نوازا تو سینکڑوں مبصرین نے ان انتخابات کو مشرق وسطی کے سب سے منصفانہ انتخابات قرار دیا اور ان میں جمی کارٹر بھی شامل تھے – لیکن امریکہ کے ایماء پر ہماری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی جس سے فتح نے ایک نیا سلسلہ شروع کردیا اور اہل غزہ کو ’’تن تنہا ‘‘ کردیا گیا-
جمی کارٹر کی جانب سے جو تجویز سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی مذاکرات اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہ ہوں گے جب تک ہم بغیر کسی شرط کے مذاکرات کی میز پر نہ بیٹھ جائیں- گزشتہ نو مبر میں‘‘انا پولیس’’ میں ہونے والی امن کانفرنس کے بعد سے اسرائیل نے تشدد میں اضافہ کردیا ہے اور وہ فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کی پالیسی پر گامزن ہے جوکہ عالمی معاہدوں کی سراسر خلاف ورزی ہے – اسرائیل کی جاب سے وائٹ ہائوس کی منظوری کے بعد فوجی حملوں کے بعد سینکڑوں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں – 2007ء میں شہید ہونے والے چالیس فلسطینیوں کے مقابلے میں ایک یہودی کاتھا ،جبکہ 2000سے 2005ء کے درمیان یہ تناسب چار کے مقابلے میں ایک تھا- صرف تین ماہ پہلے میں نے اپنے بیٹے حسام کو دفن کیا ہے جو کالج میں فنانس کا طالب علم تھا اور اکاؤنٹنٹ بننا چاہتا تھا- وہ اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں شہید ہوا، سال 2003ء میں میں نے خالد کو دفن کیاتھا ، وہ میرا سب سے بڑا بچہ تھا – وہ ایف سولہ کے حملے کانشانہ بنا، اس حملے میں مجھے نشانہ بنایاگیاتھا اس میں میری بیوی اور بیٹی زخمی ہوئی تھیں اور جس عمارت میں ہم رہتے تھے وہ عمارت بھی تباہ ہوگئی تھی- اس حملے میں کئی ہمسائے بھی شہید ہوئے تھے ، گزشتہ برس میرا داماد بھی شہید ہواتھا-
حسام عمر صرف 21 برس تھی، لیکن غزہ کے کئی نوجوانوں کی طرح وہ جلد ہی بھرپورجوان ہوگیاتھا ، جب میں اس کا ہم عمر تھا ، میں سرجن بننا چاہتاتھا ، 1960ء کے عشرے میں ہم بھی مہاجر تھے ، لیکن اس وقت رکاوٹوں ( blocked)کا وہ سلسلہ نہیں تھا جو اب ہے ، لیکن اب جبکہ غلامی، قیدی، بے گھری اور شہادتوں کے دسیوں برس گزر چکے ہیں ، ہم پوچھتے ہیں :کیا ایسی حالت میں امن قائم ہوسکتاہے ، کہ جب کسی کا احترام ہی نہ ہو اور اگر انصاف ہی سے احترام نہ ملے گا تو کہاں سے ملے گا-
ہماری تحریک کی جدوجہد جاری ہے،ہم نہیں چاہتے کہ ظالم یہودی ریاست ہمیں اپنے گھروں سے ایک بار پھر نکال باہر پھینکنے میں کامیاب ہوجائے، ہمارے قصبے، دیہات اور گھر خالی ہوجائیں اور ہم دنیا کے ضمیر ہی سے محو ہوجائیں، بھلا دیئے جائیں یا مذاکرات کے ذریعے ہمارا وجود ختم کردیا جائے ، یہودیت جس نے انسانیت کو تہذیبی ورثہ عطا کیاتھا اب صہیونیت ، قوم پرستی اور نسلی امتیاز کی بھول بھلیوں میں گم ہوچکی ہے-
فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کرناہے تو اس کے لئے آغاز میں معمولی سا قدم اٹھانا ہوگا اور وہ قدم یہ ہے کہ اسرائیل 1967ء کی سرحدوں پر واپس چلا جائے، تمام نئی آبادکار بستیاں ختم کردے، تمام قیدیوں کو رہا کردے ،غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے فوج ہٹالے، بیت المقدس سے ناجائز الحاق کو ختم کردے ، فلسطین کی فضائیہ اور بحری علاقے ہمیشہ کے لئے خالی کردے – فلسطین کی عالمی سرحدیں خالی کردے اور تمام قیدیوں کو رہا کردے، جب یہ اقدامات ہوجائیں گے تو منصفانہ مذاکرات کے سلسلے کا آغاز ہوسکے گااور لاکھوں مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوسکے گا- ہم نے جو کچھ گنوا دیا ہے اس کے بعد نیا آغاز تو اسی طرح ہوسکتاہے-
مجھے اپنے بیٹوں پر فخر ہے، میں انہیں روز یاد کرتاہوں، میں انہیں ایسے ہی یاد کرتاہوں جیسا کہ اسرائیلی باپ اپنے بیٹوں کو یاد کرتے ہیں، مجھے اپنے بیٹے ،ذہین طالب علم ، غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک نوجوان کے طور پر یاد تے ہیں ‘‘بندوق بردار’’ یا ‘‘دہشت گرد’’ کے طور پریاد نہیں تے لیکن یہ اچھا ہوا کہ وہ ‘‘سازشوں میں شریک افراد’’ کے طور پر نہیں بلکہ وطن کا دفاع کرنے والے نوجوانوں کے طور پر ہم سے رخصت ہوئے یہ اچھا ہوا کہ وہ ہماری غلامی کے خاموش تماشائی کے طور پر نہیں بلکہ بقاء کی جنگ کے مجاہد کے طور پر اس دنیا سے رخصت ہوئے- تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے – 1948 ء میں ہونے والے مجرمانہ جرائم کا سدباب ابھی شروع ہی ہوا ہے اور زبوں حالی نے ہمیں صبر سکھا دیا ہے -جہاں تک اسرائیلی ریاست اور جنگ مسلسل جاری رکھنے کا تعلق ہے، اسے جان لینا چاہیے کہ اسرائیل جنگ سے ہار جائے گا لیکن ہم اس جنگ سے نہیں ہاریں گے ہم نہیں ہوں گے تو ہمارے بچے یہ جنگ لڑیں گے-
