کیا پیٹرول عربوں کے خون سے زیادہ قیمتی ہے ؟تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک کے فلسطینیوں سے لاتعلقی کے رویے کی وجہ سے فلسطینی یہ سوال اکثر ایک دوسرے سے پوچھتے نظر تے ہیں کیونکہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی زندگی کو اجیرن کرکے رکھ دیا ہے- چار عرب ممالک یعنی سعودی عرب ،کویت ، متحدہ عرب امارات اور قطر روزانہ بیس بلین بیرل خام تیل پیدا کرتے ہیں، اگر اس کا اندازہ ڈالروں میں لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ چار عرب ممالک تیل فروخت کرنے سے دو ارب ڈالر روزانہ اور ساٹھ ارب ڈالر ماہانہ یا سات سو بیس بلین ڈالر سالانہ کماتے ہیں-
دیکھنا چاہیے کہ اتنی بڑی رقم کا کتنا حصہ ان پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو دیا جاتاہے کہ جو غزہ کی پٹی پر اسرائیلی محاصرے کے بعد انتہائی افسوس ناک صورت حال کا سامنا کررہے ہیں – اسرائیل کا منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کی پٹی پر قبضہ مکمل ہوجائے تو پھر دیگر عرب ممالک کو بھی غلام بنایا جائے – اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے غزہ کی پٹی ایک بڑے تباہ حال قید خانے کا منظر پیش کررہی ہے ، شہید اور زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد کیا ہے، یہ جواب تفصیل طلب ہے –
اتنی بڑی رقم کا کتنے فیصد کالجوں کے فلسطینی طلبہ کودیا جاتاہے کہ جو ان کے ممالک میں رہ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور فلسطینی اس لئے واپس نہیں جاتے کیونکہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ فلسطین کر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے واجبات ادا کرسکیں-
عرب شیخ، امیراوربادشاہ اگر ہمت کرلیں تو انہیں تیل اور گیس کی آمدن میں سے بہت بڑی رقم فلسطینیوں پر خرچ نہ کرنا پڑے گی عرب ممالک تیل اور گیس کی ضرورت سے جتنی رقم ایک دن میں حاصل کرتے ہیں اس سے فلسطینی لوگوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں- اس رقم سے فلسطینی انتظامیہ تمام سول ملازمین کی تنخواہیں ادا کرسکتی ہے اور کالجوں کے غریب طلبہ کی فیسیں ایک سال کے لئے ادا کی جاسکتی ہیں – اس رقم سے غریب طبقات کے لئے اشیائے خورو نوش وافرمقدار میں حاصل کی جاسکتی ہیں-
مختصر، امیرعرب ممالک فلسطینیوں کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہ نسلی ‘‘تطہیر’’ کی اسرائیلی مہم کو ناکام بنادیں اور ان کو یہ فکر بھی نہ ہو کہ ان کے بچے شام کو کیا کھائیں گے؟ اسی طرح کئی فلسطینیوں کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اسرائیل داخل ہونے کی کوشش بھی نہ کرنا پڑے گی جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے یہ کر گزرتے ہیں – یہ کہا جاسکتاہے کہ عربوں کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنے سے رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی پر اسرائیل مزید دبائو بھی نہ ڈال سکے گا کہ وہ اسرائیل کے احکامات مانتارہے اور حماس و فتح کے درمیان اختلافات ابھارے-
راقم الحروف کئی ایسے طالب علموں کو جانتاہے کہ انہوں نے کالج اس لئے چھوڑ دیاتھاکیونکہ وہ ٹیوشن فیس ادا نہیں کرسکتے تھے- میرا اشارہ ان نوجوان دانش وروں اور عورتوں کی طرف ہے کہ جو اپنی مادر وطنی میں رہنا چاہتے ہیں اور اس سرزمین پر عرب فلسطینی وجود کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں -لیکن یہ کرنے کے لئے انہیں اپنے عرب اور مسلمان بھائیوں کی جانب سے امداد کی ضرورت ہے – ان کی اکثریت یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ عربوں نے اتنی بڑی دولت جو اکٹھی کررکھی ہے اس کا وہ کیا استعمال کریں گے-
عربوں کے اربوں روپے کی کیا قدر و قیمت ہے کہ جب وہ اسرائیل کے قبضے سے مسجد اقصی کو واگزار نہیں کراسکتے – ان اربوں کھربوں رویوں کا کیا فائدہ ہے کہ جب وہ رفح یا خان یونس میں کسی فلسطینی بچے کو بھوک سے مرنے سے نہیں بچا سکتے- ان پر پابندی ہے ، عربوں اور مسلمانوں کی کمزوری کی قیمت ، فلسطینیوں کو اپنے خون سے اداکرنا پڑ رہی ہے اور یہ خون ہی ایک اندھی سپر طاقت امریکہ کے اشارے پر ہو رہاہے – عربوں کی دولت کا کیا فائدہ ہے کہ جب وہ اپنی دولت سے میڈیا کا ایسا نیٹ ورک بھی قائم نہیں کرسکتے کہ جو صہیونیوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کا توڑ کرسکے؟نیزاسرائیل کے علاقے میں توسیع پسند عزائم کو بے نقاب کرسکتے- سعودیوں کی مثال لے لیجئے، اہل سعودیہ ، فلسطینیوں کی تنخواہوں کا مسئلہ ب سانی حل کرسکتے ہیں، اہل کویت غزہ اور مغربی کنارے میں تین چار اعلی درجے کے ہسپتال قائم کرسکتے ہیں جو صہیونی دہشت گردوں کے حملے میں زخمی ہونے والوں کی زندگی بحال کرسکتے ہیں، ہزاروں لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچا سکتے ہیں-
متحدہ عرب امارات، غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں موجود یونیورسٹی کے طالب علموں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرسکتے ہیں- قطر کے اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، وہ فلسطینیوں کی اس طرح مدد کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے لئے بجلی خود پیدا کرسکیں- قطر ، مصر سے کہہ سکتاہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں برقی رو کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے اور اس طرح فلسطینیوں کو یہ موقع مل سکتاہے کہ وہ اسرائیلی بلیک میل سے نجات حاصل کرلیں اور چاروں ریاستیں مل کر مصر کو ڈیڑھ ملین ڈالر کی رقم ادا کرسکتاہے کیونکہ اتنی ہی رقم دے کر امریکہ ٹھ کروڑ مصریوں کی راء پر اثرانداز ہوتاہے – آخر یہ مسلم حکمران مل کر یہ اقدام کیوں نہیں کرتے ؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اربوں ڈالر فلسطینیوں کے خون سے زیادہ قیمتی ہیں-
دیکھنا چاہیے کہ اتنی بڑی رقم کا کتنا حصہ ان پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو دیا جاتاہے کہ جو غزہ کی پٹی پر اسرائیلی محاصرے کے بعد انتہائی افسوس ناک صورت حال کا سامنا کررہے ہیں – اسرائیل کا منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کی پٹی پر قبضہ مکمل ہوجائے تو پھر دیگر عرب ممالک کو بھی غلام بنایا جائے – اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے غزہ کی پٹی ایک بڑے تباہ حال قید خانے کا منظر پیش کررہی ہے ، شہید اور زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد کیا ہے، یہ جواب تفصیل طلب ہے –
اتنی بڑی رقم کا کتنے فیصد کالجوں کے فلسطینی طلبہ کودیا جاتاہے کہ جو ان کے ممالک میں رہ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور فلسطینی اس لئے واپس نہیں جاتے کیونکہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ فلسطین کر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے واجبات ادا کرسکیں-
عرب شیخ، امیراوربادشاہ اگر ہمت کرلیں تو انہیں تیل اور گیس کی آمدن میں سے بہت بڑی رقم فلسطینیوں پر خرچ نہ کرنا پڑے گی عرب ممالک تیل اور گیس کی ضرورت سے جتنی رقم ایک دن میں حاصل کرتے ہیں اس سے فلسطینی لوگوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں- اس رقم سے فلسطینی انتظامیہ تمام سول ملازمین کی تنخواہیں ادا کرسکتی ہے اور کالجوں کے غریب طلبہ کی فیسیں ایک سال کے لئے ادا کی جاسکتی ہیں – اس رقم سے غریب طبقات کے لئے اشیائے خورو نوش وافرمقدار میں حاصل کی جاسکتی ہیں-
مختصر، امیرعرب ممالک فلسطینیوں کو اس قابل بنا سکتے ہیں کہ وہ نسلی ‘‘تطہیر’’ کی اسرائیلی مہم کو ناکام بنادیں اور ان کو یہ فکر بھی نہ ہو کہ ان کے بچے شام کو کیا کھائیں گے؟ اسی طرح کئی فلسطینیوں کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اسرائیل داخل ہونے کی کوشش بھی نہ کرنا پڑے گی جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے یہ کر گزرتے ہیں – یہ کہا جاسکتاہے کہ عربوں کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنے سے رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی پر اسرائیل مزید دبائو بھی نہ ڈال سکے گا کہ وہ اسرائیل کے احکامات مانتارہے اور حماس و فتح کے درمیان اختلافات ابھارے-
راقم الحروف کئی ایسے طالب علموں کو جانتاہے کہ انہوں نے کالج اس لئے چھوڑ دیاتھاکیونکہ وہ ٹیوشن فیس ادا نہیں کرسکتے تھے- میرا اشارہ ان نوجوان دانش وروں اور عورتوں کی طرف ہے کہ جو اپنی مادر وطنی میں رہنا چاہتے ہیں اور اس سرزمین پر عرب فلسطینی وجود کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں -لیکن یہ کرنے کے لئے انہیں اپنے عرب اور مسلمان بھائیوں کی جانب سے امداد کی ضرورت ہے – ان کی اکثریت یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ عربوں نے اتنی بڑی دولت جو اکٹھی کررکھی ہے اس کا وہ کیا استعمال کریں گے-
عربوں کے اربوں روپے کی کیا قدر و قیمت ہے کہ جب وہ اسرائیل کے قبضے سے مسجد اقصی کو واگزار نہیں کراسکتے – ان اربوں کھربوں رویوں کا کیا فائدہ ہے کہ جب وہ رفح یا خان یونس میں کسی فلسطینی بچے کو بھوک سے مرنے سے نہیں بچا سکتے- ان پر پابندی ہے ، عربوں اور مسلمانوں کی کمزوری کی قیمت ، فلسطینیوں کو اپنے خون سے اداکرنا پڑ رہی ہے اور یہ خون ہی ایک اندھی سپر طاقت امریکہ کے اشارے پر ہو رہاہے – عربوں کی دولت کا کیا فائدہ ہے کہ جب وہ اپنی دولت سے میڈیا کا ایسا نیٹ ورک بھی قائم نہیں کرسکتے کہ جو صہیونیوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کا توڑ کرسکے؟نیزاسرائیل کے علاقے میں توسیع پسند عزائم کو بے نقاب کرسکتے- سعودیوں کی مثال لے لیجئے، اہل سعودیہ ، فلسطینیوں کی تنخواہوں کا مسئلہ ب سانی حل کرسکتے ہیں، اہل کویت غزہ اور مغربی کنارے میں تین چار اعلی درجے کے ہسپتال قائم کرسکتے ہیں جو صہیونی دہشت گردوں کے حملے میں زخمی ہونے والوں کی زندگی بحال کرسکتے ہیں، ہزاروں لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچا سکتے ہیں-
متحدہ عرب امارات، غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں موجود یونیورسٹی کے طالب علموں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرسکتے ہیں- قطر کے اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، وہ فلسطینیوں کی اس طرح مدد کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے لئے بجلی خود پیدا کرسکیں- قطر ، مصر سے کہہ سکتاہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں برقی رو کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے اور اس طرح فلسطینیوں کو یہ موقع مل سکتاہے کہ وہ اسرائیلی بلیک میل سے نجات حاصل کرلیں اور چاروں ریاستیں مل کر مصر کو ڈیڑھ ملین ڈالر کی رقم ادا کرسکتاہے کیونکہ اتنی ہی رقم دے کر امریکہ ٹھ کروڑ مصریوں کی راء پر اثرانداز ہوتاہے – آخر یہ مسلم حکمران مل کر یہ اقدام کیوں نہیں کرتے ؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اربوں ڈالر فلسطینیوں کے خون سے زیادہ قیمتی ہیں-