قابض اسرائیلی افواج مقامی طور پر پیداہونے والی ایشیا کو تباہ کرنے کے لئے کسانوں کو ٹارگٹ بنائے ہوئے ہے- کھیتوں میں کام کرتے ہوئے بیسیوں کسانوں کو شہید کردیاجاتا- حصار بندی سے اب تک اسرائیلی تخریب کاری سے زرعی شعبہ کو براہ راست اور بالواسطہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان ہوچکاہے – حصار بندی کے باعث چار کروڑ پھول تلف کرنا پڑے- غزہ کو تمام غذائی مواد میں 75 فیصد کمی کا سامنا ہے- ستر ہزار ایکڑ زرعی رقبے پر کاشت کاری کا عمل رکا ہوا ہے- 75 فیصد مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں-
ان خیالات کا اظہار غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی حکومت کے وزیر زراعت ڈاکٹر محمد آغا نے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- انٹرویو کا متن زائرین کے لیے پیش خدمت ہے-
حالیہ دنوں میں فلسطینی زرعی سیکٹر اور کسانوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے- زرعی اراضی کے وسیع رقبے کو ہموار کردیا گیا، شہداء کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، آپ اسرائیلی پالیسی کا کس طرح مطالعہ کرتے ہیں اور کسانوں کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ کیا ہے؟
جواب: انتفاضہ کے دوران کسانوں کے خلاف اسرائیلی جارحانہ کارروائیاں کسی لمحے نہیں رکیں- اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو زمینوں سے دور کرنے کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عمل پیرا ہے- زمینوں پر کاشتکاری کرتے ہوئے بیسیوں کسانوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کیا گیا- حالیہ دنوں میں دیکھا جارہا ہے کہ اسرائیلی افواج کسانوں کو ٹارگٹ بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے- گزشتہ دو ہفتوں کے دوران تین کسان شہید کردیئے گئے- وہ شمالی غزہ میں اپنے کھیتوں میں کام کررہے تھے- سرحدی علاقوں پر اسرائیلی جارحیت کے جاری رہنے کی وجہ سے کسان اپنی زمینوں سے کٹ جائیں گے- قابض اسرائیل انسانوں، درختوں اور پتھروں تک کو نشانہ بنائے ہوئے ہے- وہ کسی بھی فلسطینی شعبے کو ترقی پاتا نہیں دیکھنا چاہتا-
اسرائیلی تخریب کاری کے باعث زمینوں کا کتنا رقبہ ہے جنہیں تباہ کیا گیا ہے؟
جواب: اسرائیل کی براہ راست یا بالواسطہ کارروائیوں سے متاثر ہونے والی زمینوں کا رقبہ 100کلومیٹر مربع تک پہنچ گیاہے- یعنی غزہ کے کل رقبے کا 27 فیصد حصہ اسرائیلی تخریب کاری کانشانہ بناہے جبکہ براہ راست اور بالواسطہ نقصانات کااندازہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے، ان میں براہ راست نقصانات 50 کروڑ ڈالر ہیں-
کسانوں کی مشکلات میں کمی اور انہیں معاوضہ دینے کے حوالے سے آپ کیا کوششیں کر رہے ہیں؟
جواب :غزہ میں فلسطینی حکومت نے اسرائیلی دراندازیوں کی وجہ سے متاثر ہونے والے کسانوں کو معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا ہے- جس کی بناء اسرائیلی کارروائیوں سے متاثرہ افراد میں سے 8 ہزار 5سو کسان حکومت کی معاوضہ دینے کی پالیسی سے استفادہ حاصل کرچکے ہیں جبکہ 3 ہزار ماہی گیروں کو نقدامداددی گئی ہے- کسانوں کی مدد حکومت کا فرض ہے – کسانوں کی مشکلات میں کمی اور اسرائیلی کارروائیوں میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ حکومت کے فرائض میں شامل ہے-
آزاد کرائی جانے والی ان زمینوں سے استفادہ کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی گئی ہے – جو 2005ء تک اسرائیل کے قبضے میں تھیں اور اس پر یہودی آبادیاں تعمیر تھیں؟
جواب :اس موضوع کو کابینہ کے فیصلے کے بعد انتظامی ادارے کے حوالے کردیا گیا ہے جو منصوبوں کی کامیابی کے حوالے سے فنی مشورے حاصل کررہاہے –
زرعی پیدا وار کی فروخت کی مشکل ابھی تک موجود ہے، گوشت کے حوالے سے مشکلات ہیں کیا‘ ان مسائل کے حل کے لئے کوئی رابطے کئے گئے ہیں؟
جواب :کسانوں کی مشکلات میں کمی کے لیے حصار بندی میں نرمی کے دعوے ہم سن رہے ہیں لیکن یہ تمام دعوے جھوٹے ہیں- اسرائیل کی جانب سے نرمی کرنے کے دعوے بین الاقوامی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے کئے جا رہے ہیں- اسرائیلی حکومت کاغزہ کے شہریوں کے انسانی حقوق کی پاسداری کرنے کا دعوی جھوٹ کا پلندہ ہے- حصار بندی اور سرحدوں کی بندش سے کسانوں کو بے تحاشہ نقصان ہوا ہے – زرعی شعبے کو دولاکھ ڈالر یومیہ کا نقصان پہنچ رہاہے- حصار بندی کی وجہ سے 9کروڑ 30لاکھ ڈالر مالیت کی 235400ٹن سبزیوں کی پیدا وار کی بر مد رک گئی ہے – یورپ کو پھولوں کی بر مد بھی رک گئی ہے- 65لاکھ ڈالر مالیت کے 5 کروڑ پھول بر مدنہیں کئے جاسکے – کسانوں نے 4 کروڑ پھول تلف کردیئے اور سینکڑوں ایکڑ رقبے پر کاشت کئے گئے پھولوں کے پودے اکھیڑ دیئے – اسی طرح 90لاکھ ڈالر مالیت کے 2500 ٹن شہتوت تلف ہوگئے-
گوشت کے حوالے سے کیا نقصانات ہیں ؟
جواب :اسرائیلی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کے باعث زبردست نقصانات ہوئے ہیں- غزہ میں جانوروں اور گوشت کے نہ نے کے باعث گوشت کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے – اسرائیلی حکومت نے گزشتہ سال 3جون سے غزہ میں جانوروں کی در مد بند کردی ہے جبکہ غزہ کی گوشت کی سالانہ ضروریات 50سے 70ہزار بچھڑے ہیں-
دوائیوں اور انجکشنوں میں کمی کے باعث بھی بہت نقصان ہوا ہے- گزشتہ چار ماہ میں گوشت والی 12لاکھ مرغیاں اور انڈوں والی 3 لاکھ مرغیاں ضائع ہوگئیں جبکہ سخت سردی کی لہر سے بھی کافی نقصان ہوا- جانوروں کا علاج نہ ہونے کے باعث پانچ سو بکروں کا ماہانہ نقصان ہو رہاہے-
مغربی کنارے میں ناقص اور زائد المیعاد دواؤں اور غذا کے واقعات کے بعد غزہ کی پٹی میں بھی شہریوں کو خدشات لاحق ہوگئے ہیں- ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے آپ کیا اقدامات کررہے ہیں ؟
جواب :تمام رکاوٹوں کے باوجود جو دوائیں اور خوراک غزہ میں آ رہی ہے وزارت صحت وزارت داخلہ کے تعاون سے اس کی نگرانی کررہی ہے- ناقص اور خراب خوراک ضبط کی گئی ہے – ہم تاجروں اور شہریوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ خراب پیدا وار کی تجارت کرنے والے کاانجام اچھا نہ ہوگا- زائد المیعاد خوراک کی تجارت سے بھی تاجروں کو متنبہ کیاہے- شہریوں کو کہا گیا ہے کہ وہ زائد المیعاد خوراک کی تجارت کے واقعات کی فوری شکایت کریں- مغربی کنارے میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں اس میں وزارت صحت کے ملازمین اور کراسنگ پر موجود حکومتی عہدیدار ان ملوث ہیں-
موجودہ حالات میں غزہ میں خوراک کا بحران ہے جو کہ آپ کے لیے ایک حقیقی چیلنج ہے- حقیقت حال کیا ہے ؟
جواب : آپ کی بات درست ہے- غزہ میں غذا کے حوالے سے مچھلیوں میں 80 فیصد، سرخ گوشت میں 90فیصد، دودھ اور دودھ سے تیار ہونے والی غذائی مواد میں 65 فیصد کمی ہے- غزہ کو ہر قسم کے غذائی مواد میں مجموعی طور پر 75فیصد کمی کے چیلنج کا سامناہے- 70ہزار ایکڑ زرعی رقبہ پر کاشت کاری کا عمل رکا ہوا ہے، زمینوں کو ہموار کرنے، حصار بندی اور کسانوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں کی وجہ سے کسانوں میں غربت بڑھ گئی ہے- 75فیصد سے زائد کسان بے روز گار ہیں- کراسنگز کی بندش کی وجہ سے 45ہزار مزدور بے روزگار ہیں جوکہ تین لاکھ افراد سے زائد کی کفالت کرتے ہیں- فصلوں کی کٹائی اور کاشت کے موقع پر 25 ہزار مزدور کام کرتے ہیں- بے روز گاری انسانی حادثہ کی گھنٹی بجا رہی ہے-
اسرائیل نے حال ہی میں غزہ سے زرعی تعلقات کے خاتمے کی دھمکی دی ہے؟
جواب :اسرائیل کا زرعی تعلقات کے خاتمے کا فیصلہ فلسطینی عوام کی زندگی کے لیے دھمکی ہے- یہ فیصلہ فی الواقع حادثے کے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے- زرعی تعلقات کے خاتمے کا مقصد فلسطینی زراعت کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرناہے-
