چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینیوں کو زیر کرنے کے نئے حربے

پیر 14-اپریل-2008

اسرائیل اور بش انتظامیہ محمو دعباس کی سربراہی میں ساز بازکررہے ہیں کہ ایک غیر سیاسی فلسطینی سیکورٹی فورس تشکیل دی جائے جس کی اہم ترین ذمہ داری اورمقصد وجود یہ ہو کہ فلسطینی ’’امن معاہدے‘‘پر عمل درآمد ہو رہا ہو اور اس کے خلاف کسی قسم کے ردعمل کو کچل کر رکھ دے- نئی سیکورٹی فورس ، جس کے اہل کار ہمسایہ ممالک خصوصاً اردن میں تربیت پا رہے ہیں ، کو اس نقطہ نظر سے تیار کیا جا رہاہے کہ وہ مغربی کنارے میں موجود سیکورٹی فورس کے اہل کاروں کی جگہ لے سکیں گے – ان اہلکاروں کی اکثریت فتح کے کارکنا ن پر مشتمل ہے-
عطیات دینے والے ممالک کی ہدایات خصوصاً امریکہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ، فلسطینی اتھارٹی نے کئی وجوہات کی بناء پر فتح کے ہزاروں کارکنان کو سیکورٹی فورس سے علیحدہ کردیا ہے – اس کے لئے جو وجوہات بیان کی جا رہی ہیں ان میں ریٹائرمنٹ کی عمر ، مالی مشکلا ت اور فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی اداروں کی تشکیل نو جیسی ضروریات ہیں، فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی ملازمین پر الزام ہے کہ وہ بدعنوانی اقرباء پروری، نظم وضبط کی خلاف ورزی اورپیشہ وارانہ عدم مہارت کے مرتکب ہوئے ہیں-
بہت سے لوگ جن کو برطرف کیا جا رہاہے ، ان کی عمر میں تیس اور اڑتالیس سال کے درمیان کی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی بھرپور کوشش کررہی ہے کہ جن لوگوں میں جذبہ حب الوطنی اور اسرائیلی و صہیونیت سے نفرت کے جذبات نمایاں ہیں ان کو سیکورٹی فورس ہی سے فارغ کردیا جائے – الخلیل کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک کیڈٹ کا کہناہے کہ سیکورٹی فورس کے عملے کی اسرائیل کی داخلی سلامتی کو وزارت (شن بیت) تربیت کررہی ہے – ان لوگوں کو جلوسوں کو کنٹرول کرنا ،گرفتاریاں کرنا ، مظاہروں کو منتشر کرنا اور رائفل چلانا سکھایا جا رہاہے –
ان کیڈٹوں کو چھ سو سے آٹھ سو امریکی ڈالر امداد ماہانہ کی تنخواہ دی جا رہی ہے – اس کورس کی تکمیل کے بعد ان کی تنخواہ ایک ہزار سے پندرہ سو امریکی ڈالر ہوجائے گی – فلسطین میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹر کی تنخواہ بھی تقریباً اتنی ہی ہے – ایک کیڈٹ کا کہناہے کہ اکثر کیڈٹوں کے پاس ہائی سکول کا ڈپلومہ بھی موجود نہیں ہے – چند ایک ہی ایسے لوگ ہوں گے جن کے پاس کالج کی ڈگری موجود ہے-
دورہ سے تعلق رکھنے والے اور یاسرعرفا ت کے پیرو کار ایک کیڈٹ کا کہناہے کہ ان افراد کے انتخاب کا سب سے بڑا معیار ان کی عدم واقفیت ہی ہے – ایک شخص جس قدرکم پڑھا لکھاہوگا ، اس قدر ہی وہ احمق ہوگا جس قدر ایک فرد اچھی تعلیمی بنیاد رکھتاہوگا ، اسی قدر وہ حساس ذہن کا مالک ہوگا-لیکن فلسطینی اتھارٹی کی کوشش یہ ہے کہ خالی الذہن لوگ آئیں تاکہ وہ ان کے احکامات پر بے چوں و چرا عمل کرسکیں ، انہیں پرانے دور کایہ محاورہ اچھی طرح یاد ہے ، ایک اچھا فوجی سوچتا نہیں ہے وہ صرف احکامات پر عمل درآمد کرتاہے –
جونئے رضا کار بھرتے کئے جا رہے ہیں ان میں یہ بھی دیکھا جا رہاہے کہ وہ غیرمعمولی طور پر غیر سیاسی ہوں ، غیر معمولی طور پر غیر مذہبی ہوں ، نیز ماضی میں ان کا کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے ساتھ جھکاؤ اور لگاؤ نہ ہو- دورہ سے تعلق رکھنے والے کیڈٹ نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ وہ نئے کیڈٹوں کی اس انداز میں تربیت کی جا رہی ہے کہ اگر ان سے کہاجائے کہ وہ اپنے والد پر گولی چلائیں تو وہ والد کے ساتھ ساتھ بھائی اور بچوں پر بھی گولی چلادیں گے –
نئی سیکورٹی فورس کی تشکیل میں اس بات کو بھی مد نظر رکھا جا رہا ہے کہ نئے رضا کار سیکورٹی کے جدید ترین ذرائع کی تعلیم بھی حاصل کریں اور ہر مشن پورا کرسکیں – جب ان سے سوال کیاگیا کہ اس سیکورٹی فورس کی تشکیل کن مقاصد کے لئے کی جا رہی ہے تو انہوں نے کہاکہ اس سوال کا جواب تو سیاسی قیادت ہی دے سکتی ہے – اریحا کے نزدیک حف طلق گاؤں میں کیڈٹوں سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے عمومی وزیر عبدالرزاق نے کہاکہ آپ لوگ اچھی طرح جان لیں کہ آپ کو اسرائیل سے لڑنے کے لئے ٹریننگ فراہم نہیں کی جا رہی ہے بلکہ آپ کو یہ مشن سونپا گیاہے کہ لا قانونیت ختم کریں اور امن و امان بحال کریں –
اسی برس کے آغاز چارہ ماہ کے خصوصی پروگرام میں 250 زیر تربیت افراد کو اردن بھیجا گیاتھا، تاکہ وہ جدید تربیت حاصل کریں اور اس تربیتی پروگرام کے اخراجات امریکہ برداشت کررہاہے -امریکہ کی جانب سے کیڈٹوں کی ٹریننگ کا جو پروگرام شروع کیاگیاتھا- اس کی نگرانی لیفٹیننٹ جنرل کیتھ ڈائٹن کررہے تھے – گزشتہ برس کیتھ ڈائٹن نے اپنے افسر ایلت ابرافر کہتے ہیں (جو کہ بش انتظامیہ میں نیوکون یہودی رکن ہیں ) حماس کی منتخب حکومت کو گرانے کے لئے محمد دحلان کی قیادت میں مسلح افراد تیار کئے تھے- لیکن حماس نے یہ منصوبہ ناکام بنادیااور جوابی کاروائی کرتے ہوئے بغاوت ناکام بنادی – جس کے دوران حماس کی مختصر لیکن منظم اور مضبوط سیکورٹی فورس نے فتح کی فورسز کو ناکام بنادیا اور اس طرح غزہ کی پٹی پر مکمل طور پر حماس کا قبضہ ہوگیا-
غزہ میں پیش آنے والے واقعات کے بعد بش انتظامیہ نے کوشش شروع کردی کہ ایک سے زیادہ متبادل تیارکرایا جائے اور ایسی ذیلی قوت تشکیل دی جائے کہ جو امریکی بالادستی میں چلنے والی فلسطینی اھارٹی کی حکومت کے ساتھ تعاون کرسکے اور اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ہو تو فلسطینی اتھارٹی کی مدد کرسکے –
یہ ایسی فورس ہو کہ جو اسرائیل کو اجازت دے دے کہ وہ مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو اپنے ساتھ ملائے اور مشرقی بیت المقدس کے اردگرد کی یہودی آبادیوں کو اسرائیل کے ساتھ چلانے پر اعتراض نہ کرے اور اس کے بدلے ایک ٹوٹی پھوٹی فلسطینی ریاست تشکیل ہونے دے، جسے ریاست کہا جائے-
نئی فلسطینی سیکورٹی فورسز کی تشکیل کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینیوں کو دبا کر رکھا جائے اور اگر ضروری ہو تو فلسطینیوں کو قتل بھی کردیا جائے- جو لوگ فلسطینی ریاست کی تحلیل کے خلاف بات کریں انہیں دھمکائیں- نابلس میں نجاح قومی یونیورسٹی کے پروفیسر عبد الستار قاسم سے میں نے سوال کیا کہ ایسی رضاکار قوت کے قیام کا کیا فائدہ ہوگا جس کا قیام ہی فلسطینیوں کو دبانا اور اسرائیل کو قوت فراہم کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ آزاد نہیں ’’تابعدار‘‘ فورس ہے اور اردن میں تربیت پانے والے ان فلسطینی بیٹوں کو بتا دینا چاہیے کہ آپ کو اپنے بھائی بندوں کے قتل کے لیے تربیت دی جارہی ہے- عبد الستار قاسم نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ فلسطینی اتھارٹی آلہ کار بنی ہے تاکہ فلسطینی مسئلے کو ختم کردیا جائے اور اس کے بدلے میں امریکہ سے کچھ رقم اینٹھ لی جائے-
انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا کہ اس فورس کی قانون کی بالادستی اور فلسطینی لوگوں کی زندگی کی حفاظت کے لیے ضرورت ہے-انہوں نے کہا کہ ہم قانون کی بالادستی اپنے بچوں کی سی آئی اے سے تربیت کرائے بغیر برقرار رکھ سکتے ہیں- سی آئی اے ہمارے بچوں کو تربیت دے رہی ہے کہ وہ اسرائیل کے ایماء پر اپنے بھائی بندوں کو قتل کرے- چوروں، ڈاکوؤں اور قانون توڑنے والوں پر قابو پائیں، امن قائم ہو جائے گا-

مختصر لنک:

کاپی