اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے میزائلوں کا اسرائیلی جدید اسلحہ سے موازنہ تو ممکن نہیں ہے البتہ حماس کی میزائل صلاحیت نے فلسطین اسرائیل تنازعہ کے اسٹرٹیجک توازن میں تبدیلی پیداکردی ہے- اب تنازعہ کے بارے میں کسی قسم کی بات چیت کے وقت اس پہلو کو مدنظر رکھنا ضروری ہے-
یہ لب لباب ہے امریکی سکالر مارگریٹ و یس کی تحقیق کا جو انہوں نے‘‘دہشت گرد اسلحہ کی ترقی اور اس کے اثرات’’ کے نام سے جاری کی ہے-
مارگریٹ ویس نے واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ برائے مشرق وسطی پالیسی کے تعاون سے تحقیق کی- تحقیق واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ برائے مشرق وسطی پالیسی کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہے- انسٹی ٹیوٹ امریکہ میں صہیونی حلقوں کے مفادات کا حامی تصور کیا جاتاہے- رپورٹ کے مطابق کیمپ ڈیوڈ میں بل کلنٹن کی سرپرستی میں سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہودباراک اور مرحوم فلسطینی صدر یاسرعرفات کے درمیان 11سے 25 جولائی 2000ء تک جاری رہنے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد مسئلہ فلسطین ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا- جس کا اہم ترین رخ انتفاضہ اقصی کی تحریک کا شروع ہوناتھا-
ارئیل شیرون کے مسجد اقصی میں داخل ہونے کے اشتعال انگیز اقدام سے انتفاضہ کی تحریک کا آغاز ہوا- انتفاضہ اقصی دوئم 1987ء کی انتفاضہ سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ انتفاضہ اول پتھروں کی تحریک تھی- فلسطینیوں نے اسرائیلی افواج کے مقابلے کے لئے پتھر اٹھائے جبکہ انتفاضہ دوئم میں فلسطینی گروپوں کے پاس اسلحہ گیا- انہوں نے مختلف قسم کے اسلحہ میں مہارت حاصل کرلی- حتی کہ وہ خود اسلحہ بنانے میں کامیاب ہوگئے- فلسطینی گروپوں کے تیارکردہ اسلحہ میں میزائلوں کی پیداوار نمایاں ہے- فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں 26اکتوبر 2001ء کا دن نقطہ تحول شمار ہوتاہے- اس دن غزہ سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سدیروت یہودی بستی پر حماس کے عسکری ونگ قسام بریگیڈ کا تیارکردہ پہلا میزائل گرا – اسے قسام 1کا نام دیا گیا-
فلسطینی میزائل کی صنعت اگرچہ ابتدائی مراحل میں ہے – لیکن فلسطینی اسرائیلی تنازعہ کے لئے اہم موڑ کی شکل اختیار کرگئی ہے- امریکی مجلہ ’’ٹائمز‘‘کے مطابق قسام میزائل اگرچہ ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن ان کی وجہ سے مشرق وسطی کے میں تبدیلی سکتی ہے- امریکی ٹی وی سی این این نے قسام میزائلز کو مشرق وسطی میں ٹرمپ کا رڈ قرار دیاہے-
خفیہ رپورٹوں اور دہشت گردی کے متعلق انفارمیشن سنٹر کی 14دسمبر 2007ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزاحمت کاروں کے میزائل حملوں کے نقصانات کی اہمیت ہلاکتوں یا زخمیو ں کی تعداد یا مادی نقصانات کے حجم کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ اس کے نفسیاتی اثرات ہیں- ایک لاکھ 90 ہزاریہودی شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگیاہے- سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فلسطینی میزائل حملوں میں 2001 ء سے اب تک اگرچہ صرف 15یہودی ہلاک اور 500 زخمی ہوئے، لیکن ایک لاکھ 90 ہزار یہودی مزاحمت کاروں کے حملوں کی زد میں ہیں- وہ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں- میزائل اسرائیل کے لئے باعث تکلیف ہیں – حماس کے رہنما محمود الزہار نے کہاہے کہ میزائل کے باعث یہودی اجتماعی ہجرت کررہے ہیں- اسرائیل کے روز مرہ کے حالات اور حکومتی انتظامیہ میں انتشار پیدا ہوا ہے –
فلسطینی گروپوں کا ابتدائی اسلحہ اسرائیل کے لئے چیلنج بن گیاہے- اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائل کی پیداوار 2003ء میں 2002ء کے مقابلے میں دوگنی اور 2005ء اور 2006ء میں چوگنی ہوگئی- امریکی ریسرچ میں کہاگیاہے کہ حماس کی طرف سے اسرائیلی شہروں اور قصبوں پر فائز کئے جانے والے میزائلوں کی اوسط 200 فی ماہ تک پہنچ گئی ہے جبکہ مارچ کے پہلے ہفتے میں 100میزائل فائر کئے گئے-
یہ لب لباب ہے امریکی سکالر مارگریٹ و یس کی تحقیق کا جو انہوں نے‘‘دہشت گرد اسلحہ کی ترقی اور اس کے اثرات’’ کے نام سے جاری کی ہے-
مارگریٹ ویس نے واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ برائے مشرق وسطی پالیسی کے تعاون سے تحقیق کی- تحقیق واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ برائے مشرق وسطی پالیسی کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہے- انسٹی ٹیوٹ امریکہ میں صہیونی حلقوں کے مفادات کا حامی تصور کیا جاتاہے- رپورٹ کے مطابق کیمپ ڈیوڈ میں بل کلنٹن کی سرپرستی میں سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہودباراک اور مرحوم فلسطینی صدر یاسرعرفات کے درمیان 11سے 25 جولائی 2000ء تک جاری رہنے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد مسئلہ فلسطین ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا- جس کا اہم ترین رخ انتفاضہ اقصی کی تحریک کا شروع ہوناتھا-
ارئیل شیرون کے مسجد اقصی میں داخل ہونے کے اشتعال انگیز اقدام سے انتفاضہ کی تحریک کا آغاز ہوا- انتفاضہ اقصی دوئم 1987ء کی انتفاضہ سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ انتفاضہ اول پتھروں کی تحریک تھی- فلسطینیوں نے اسرائیلی افواج کے مقابلے کے لئے پتھر اٹھائے جبکہ انتفاضہ دوئم میں فلسطینی گروپوں کے پاس اسلحہ گیا- انہوں نے مختلف قسم کے اسلحہ میں مہارت حاصل کرلی- حتی کہ وہ خود اسلحہ بنانے میں کامیاب ہوگئے- فلسطینی گروپوں کے تیارکردہ اسلحہ میں میزائلوں کی پیداوار نمایاں ہے- فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں 26اکتوبر 2001ء کا دن نقطہ تحول شمار ہوتاہے- اس دن غزہ سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سدیروت یہودی بستی پر حماس کے عسکری ونگ قسام بریگیڈ کا تیارکردہ پہلا میزائل گرا – اسے قسام 1کا نام دیا گیا-
فلسطینی میزائل کی صنعت اگرچہ ابتدائی مراحل میں ہے – لیکن فلسطینی اسرائیلی تنازعہ کے لئے اہم موڑ کی شکل اختیار کرگئی ہے- امریکی مجلہ ’’ٹائمز‘‘کے مطابق قسام میزائل اگرچہ ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن ان کی وجہ سے مشرق وسطی کے میں تبدیلی سکتی ہے- امریکی ٹی وی سی این این نے قسام میزائلز کو مشرق وسطی میں ٹرمپ کا رڈ قرار دیاہے-
خفیہ رپورٹوں اور دہشت گردی کے متعلق انفارمیشن سنٹر کی 14دسمبر 2007ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزاحمت کاروں کے میزائل حملوں کے نقصانات کی اہمیت ہلاکتوں یا زخمیو ں کی تعداد یا مادی نقصانات کے حجم کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ اس کے نفسیاتی اثرات ہیں- ایک لاکھ 90 ہزاریہودی شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگیاہے- سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فلسطینی میزائل حملوں میں 2001 ء سے اب تک اگرچہ صرف 15یہودی ہلاک اور 500 زخمی ہوئے، لیکن ایک لاکھ 90 ہزار یہودی مزاحمت کاروں کے حملوں کی زد میں ہیں- وہ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں- میزائل اسرائیل کے لئے باعث تکلیف ہیں – حماس کے رہنما محمود الزہار نے کہاہے کہ میزائل کے باعث یہودی اجتماعی ہجرت کررہے ہیں- اسرائیل کے روز مرہ کے حالات اور حکومتی انتظامیہ میں انتشار پیدا ہوا ہے –
فلسطینی گروپوں کا ابتدائی اسلحہ اسرائیل کے لئے چیلنج بن گیاہے- اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائل کی پیداوار 2003ء میں 2002ء کے مقابلے میں دوگنی اور 2005ء اور 2006ء میں چوگنی ہوگئی- امریکی ریسرچ میں کہاگیاہے کہ حماس کی طرف سے اسرائیلی شہروں اور قصبوں پر فائز کئے جانے والے میزائلوں کی اوسط 200 فی ماہ تک پہنچ گئی ہے جبکہ مارچ کے پہلے ہفتے میں 100میزائل فائر کئے گئے-