فلسطین میں حقیقی قیام امن مشکل نظر آ رہا ہے – کیونکہ امریکی ریاست، اسرائیل کے ساتھ مل کر ساز باز کررہی ہے ، تاہم مشرق وسطی بلکہ دنیا بھر میں امن سے محبت کرنے والے لوگ امریکی وزیرخارجہ کے مشرق وسطی کے دورے سے حیرت میں مبتلا ہیں-
کنڈولیزا رائس تین سال پہلے امریکی وزیر خارجہ بنی تھیں اس وقت سے لے کر اب تک رائس نے رام اللہ و مقبوضہ بیت المقدس کے کئی دورے کئے ہیں- تاہم فلسطینیوں کی جو صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، یہ ممکن نہیں ہے کہ حالیہ دورے سے کوئی تبدیلی آجائے – امریکہ کی جانب سے اس علاقے میں قیام امن کی کوششوں کی ناکامی کے اسباب ڈھکے چھپے نہیں ہیں-
امریکہ اچھی طرح جانتاہے کہ امریکی دباؤ کے بغیر ، اسرائیل قیام امن کی سمت ایک انچ نہ بڑھے گا ، لیکن امریکی حکومت اس سمت قدم بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہے – کانگریس کو یہودی کنٹرول کررہے ہیں ، امریکی انتظامیہ پر امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی اور اسرائیل کی حمایت کرنے والے ، نیوکونزکا قبضہ ہے ، ان حالات میں امریکی حکومت کے صدر جارج بش سے لے کر کنڈو لیزا رائس تک اور چار ممالک کی کمیٹی کے اراکین تک نے اسرائیل سے کئی بار کہاہے کہ چھ صد سے زائد رکاوٹوں کو ختم کردیا جائے ، ان رکاوٹوں پر اسرائیلی تعینات ہیں کہ خود ذہنی طور پر نازی ازم کے ہیرو نظر آتے ہیں ، لیکن امریکہ اور یورپ کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے اسرائیلی حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ مزید چوکیاں اور مزید رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں تاکہ فلسطینیوں کی روز مرہ کی زندگی بالکل تباہ ہو کر رہ جائے –
آخر کیا وجہ ہے کہ اسرائیل ، امریکی انتظامیہ کی مرضی کے خلاف اقدام کرتاہے جس نے کئی بار کہاہے کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں قائم رکاوٹیں ختم کردی جائیں ،اس کا جواب بہت واضح ہے – صحیح یا غلط اسرائیل یہ سوچتاہے کہ وہ امریکہ کو کنٹرول کرتاہے نیز یہ کہ وہ امریکی سیاست اور امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتاہے، مزید یہ کہ کانگرس اور ذرائع ابلاغ اس کے کنٹرول میں نہیں اور امریکہ نے اہم مالیاتی ادارے ، اسرائیل کی طرف ، اہم فیصلے کرتے ہوئے دیکھتے ضرورہیں- چند سال پہلے کی بات ہے یہ خبر عام تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون نے شمعون پیریز ( اس وقت کے وزیر خارجہ )سے کہاتھاکہ ’’ہم امریکہ کو کنٹرول کرتے ہیں اور امریکی اس بات کو جانتے ہیں ‘‘الخلیل میں قیام پذیر ، سکونت پذیر ایک آبادکار یہودی لیڈر نے ایک صحافی سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ’’اسرائیلی عوام میں اتنی قوت ہے کہ وہ امریکہ کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے ‘‘میں نے فلوریڈا سے مقبوضہ فلسطین میں آکر آباد ہونے والے یہودی سے اس بارے میں سوال کیا یہ کس طرح ممکن ہے کہ چند لاکھ امریکی یہودی دنیا کی سب سے بڑی ریاست کو چند گھنٹوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں تو انہوں نے کہاکہ ’’ہم تیس کروڑ امریکی عوام کو براہ راست کنٹرول نہیں کرتے ، بلکہ ہم انہیں کنٹرول کرتے ہیں جن کا ان پر کنٹرول ہے – اسرائیل میں کئی ایسے لوگ مل جائیں گے کہ جو کہیں گے کہ یہ سب کچھ ’’احمقانہ ‘‘بات ہے لیکن ایسے امریکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے کہ جو اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی خصوصاً فلسطین ، اسرائیل ، عراق ، افغانستان بلکہ یورپ کے متعلق اسرائیل میں بنتی ہے ،امریکہ میں نہیں –
دو ماہ پہلے کی بات ہے ، میری مغربی کنارے کے شہر الخلیل کے ایک ریستوران میں امریکہ کے مسیحی لیڈروں کے ایک گروپ سے ملاقات ہوئی ، ان میں سے ایک خاتون کا الی نائے سے تعلق تھا ، اس نے کہا’’مجھے یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہاہے کہ آپ( فلسطینی )آئندہ کئی برس بھی اسرائیل کے کنٹرول میں رہیں گے –
جب میں نے اس 65 سالہ خاتون سے سوال کیا کہ اسرائیل پرجو ملک دباؤ ڈالنے کے قابل ہے کہ وہ فلسطین کا تسلط چھوڑ دے وہ امریکہ ہے جبکہ اسرائیل ہمارا ملک بھی کنٹرول کرتاہے اور ہماری حکومت بھی – یہ سوچنا بے معنی ہوگا کہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ امریکہ مشرق وسطی میں امن لے آئے گا ، یہ اس وقت ہوگا جب امریکہ اسرائیل پر شدید ترین دباؤ ڈالے ، لیکن امریکہ کی اکثر کوشش ہوتی ہے کہ وہ قیام امن کے علمبردار کی صورت میں سامنے آئے لیکن محمود عباس اور اولمرٹ کے درمیان جو ملاقات ہوئی ہے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے -مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی جو صورت حال ہے اس کو دیکھ کر کہا جاسکتاہے کہ دوریاستی تصور ختم ہوچکاہے ، اگرچہ امریکہ ، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی اس کے بارے میں بیانات دایتی رہی ہے – فلسطینی عوام کو اور ان کی حقیقی قیادت کو چاہیے کہ ریاست ہائے متحدہ اسرائیل جی ہاں ، ریاست ہائے اسرائیل کو یہ باور کرادے کہ فلسطین آزاد ہو کر رہے گا-
کنڈولیزا رائس تین سال پہلے امریکی وزیر خارجہ بنی تھیں اس وقت سے لے کر اب تک رائس نے رام اللہ و مقبوضہ بیت المقدس کے کئی دورے کئے ہیں- تاہم فلسطینیوں کی جو صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، یہ ممکن نہیں ہے کہ حالیہ دورے سے کوئی تبدیلی آجائے – امریکہ کی جانب سے اس علاقے میں قیام امن کی کوششوں کی ناکامی کے اسباب ڈھکے چھپے نہیں ہیں-
امریکہ اچھی طرح جانتاہے کہ امریکی دباؤ کے بغیر ، اسرائیل قیام امن کی سمت ایک انچ نہ بڑھے گا ، لیکن امریکی حکومت اس سمت قدم بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہے – کانگریس کو یہودی کنٹرول کررہے ہیں ، امریکی انتظامیہ پر امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی اور اسرائیل کی حمایت کرنے والے ، نیوکونزکا قبضہ ہے ، ان حالات میں امریکی حکومت کے صدر جارج بش سے لے کر کنڈو لیزا رائس تک اور چار ممالک کی کمیٹی کے اراکین تک نے اسرائیل سے کئی بار کہاہے کہ چھ صد سے زائد رکاوٹوں کو ختم کردیا جائے ، ان رکاوٹوں پر اسرائیلی تعینات ہیں کہ خود ذہنی طور پر نازی ازم کے ہیرو نظر آتے ہیں ، لیکن امریکہ اور یورپ کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے اسرائیلی حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ مزید چوکیاں اور مزید رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں تاکہ فلسطینیوں کی روز مرہ کی زندگی بالکل تباہ ہو کر رہ جائے –
آخر کیا وجہ ہے کہ اسرائیل ، امریکی انتظامیہ کی مرضی کے خلاف اقدام کرتاہے جس نے کئی بار کہاہے کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں قائم رکاوٹیں ختم کردی جائیں ،اس کا جواب بہت واضح ہے – صحیح یا غلط اسرائیل یہ سوچتاہے کہ وہ امریکہ کو کنٹرول کرتاہے نیز یہ کہ وہ امریکی سیاست اور امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتاہے، مزید یہ کہ کانگرس اور ذرائع ابلاغ اس کے کنٹرول میں نہیں اور امریکہ نے اہم مالیاتی ادارے ، اسرائیل کی طرف ، اہم فیصلے کرتے ہوئے دیکھتے ضرورہیں- چند سال پہلے کی بات ہے یہ خبر عام تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون نے شمعون پیریز ( اس وقت کے وزیر خارجہ )سے کہاتھاکہ ’’ہم امریکہ کو کنٹرول کرتے ہیں اور امریکی اس بات کو جانتے ہیں ‘‘الخلیل میں قیام پذیر ، سکونت پذیر ایک آبادکار یہودی لیڈر نے ایک صحافی سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ’’اسرائیلی عوام میں اتنی قوت ہے کہ وہ امریکہ کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے ‘‘میں نے فلوریڈا سے مقبوضہ فلسطین میں آکر آباد ہونے والے یہودی سے اس بارے میں سوال کیا یہ کس طرح ممکن ہے کہ چند لاکھ امریکی یہودی دنیا کی سب سے بڑی ریاست کو چند گھنٹوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں تو انہوں نے کہاکہ ’’ہم تیس کروڑ امریکی عوام کو براہ راست کنٹرول نہیں کرتے ، بلکہ ہم انہیں کنٹرول کرتے ہیں جن کا ان پر کنٹرول ہے – اسرائیل میں کئی ایسے لوگ مل جائیں گے کہ جو کہیں گے کہ یہ سب کچھ ’’احمقانہ ‘‘بات ہے لیکن ایسے امریکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے کہ جو اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی خصوصاً فلسطین ، اسرائیل ، عراق ، افغانستان بلکہ یورپ کے متعلق اسرائیل میں بنتی ہے ،امریکہ میں نہیں –
دو ماہ پہلے کی بات ہے ، میری مغربی کنارے کے شہر الخلیل کے ایک ریستوران میں امریکہ کے مسیحی لیڈروں کے ایک گروپ سے ملاقات ہوئی ، ان میں سے ایک خاتون کا الی نائے سے تعلق تھا ، اس نے کہا’’مجھے یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہاہے کہ آپ( فلسطینی )آئندہ کئی برس بھی اسرائیل کے کنٹرول میں رہیں گے –
جب میں نے اس 65 سالہ خاتون سے سوال کیا کہ اسرائیل پرجو ملک دباؤ ڈالنے کے قابل ہے کہ وہ فلسطین کا تسلط چھوڑ دے وہ امریکہ ہے جبکہ اسرائیل ہمارا ملک بھی کنٹرول کرتاہے اور ہماری حکومت بھی – یہ سوچنا بے معنی ہوگا کہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ امریکہ مشرق وسطی میں امن لے آئے گا ، یہ اس وقت ہوگا جب امریکہ اسرائیل پر شدید ترین دباؤ ڈالے ، لیکن امریکہ کی اکثر کوشش ہوتی ہے کہ وہ قیام امن کے علمبردار کی صورت میں سامنے آئے لیکن محمود عباس اور اولمرٹ کے درمیان جو ملاقات ہوئی ہے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے -مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی جو صورت حال ہے اس کو دیکھ کر کہا جاسکتاہے کہ دوریاستی تصور ختم ہوچکاہے ، اگرچہ امریکہ ، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی اس کے بارے میں بیانات دایتی رہی ہے – فلسطینی عوام کو اور ان کی حقیقی قیادت کو چاہیے کہ ریاست ہائے متحدہ اسرائیل جی ہاں ، ریاست ہائے اسرائیل کو یہ باور کرادے کہ فلسطین آزاد ہو کر رہے گا-