اصل مسئلہ تبدیلی مذہب نہیں ہے- لوگوں کو اس کی آزادی ملنا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب پر عمل کریں اور بغیر کسی دباؤ کے زندگی گزاریں- قرآن کا بھی اعلان ہے ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے-‘‘ اسی طرح سورة الکاeفرون میں کہا گیا ہے کہ:
’’کہہ دیجئے: اے لوگوں جو ایمان کا انکار کرتے ہو تم جس کی عبادت کرتے ہو میں اس کی عبادت نہیں کرتا اور میں جس کی عبادت کرتا ہوں تم اس کی عبادت نہیں کرتے اور تم اس کی عبادت نہیں کروگے جس کی عبادت نہیں کرتا میں جس کی عبادت کرتا ہوں-‘‘
’’تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین‘‘
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ تبدیلی مذہب کی تقریب کو خوب بڑھایا چڑھایا جارہا ہے اور اسلام کو سب و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے-
مجدی علام جیسے ایک اسرائیلی اخبار نے ’’صہیونی مسلم‘‘ قرار دیا ہے یہ تسلیم کیا ہے کہ اگرچہ اس نے اسلام پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی کبھی نماز ادا کی لیکن وہ مسلمان ہی محسوس ہوتا ہے لیکن بدعنوان مغربی ذرائع ابلاغ نے اسے ہمیشہ ’’نمایاں مسلمان‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ مسلمان تھا اور نہ اس نے کوئی مقام حاصل کیا- وہ شخص جو اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات نیز مسیحیوں اور مسلمانوں کے قتل کی تحسین کرتا ہے وہ کس طرح صاحب ایمان ہوسکتا ہے؟ اخلاقیات، دیانت اور راست روی تو ایمان کی علامات ہیں اور یہ خوبیاں علام میں موجود ہیں- آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ایسا شخص جو صہیونیت میں یقین رکھتا ہے وہ سچائی اور شائستگی کا بھی علمبردار ہو- ایسا شخص اچھا کیتھولک تو کیا اچھا فرد نہیں ہوسکتا- ویٹی کن کے پوپ کے ہاتھ پر بیعت لیتے ہوئے علام نے اسلام کے خلاف کئی اشتعال انگیز الزامات عائد کیے- مجدی علام ’’اسرائیل زندہ باد‘‘ نامی کتاب کا مصنف ہے- اس حوالے سے یہ خبر آئی ہے کہ اس نے کہا کہ ’’اسلام میں برائی بنیاد میں موجود ہے اور تاریخی طور پر یہ دیگر مذاہب سے جھگڑتا رہا ہے-‘‘
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نظریہ اختلاف اور ٹکراؤ سے پاک ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اچھائی اور برائی کے درمیان ’’اخلاقی طور پر غیر جانبدار ہو-‘‘ پہلے روز ہی سے مسیحیت بھی اختلافی رہی ہے- حتی کے باب 10 میں آیت 39-34 میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ خیال نہ کرو کہ میں زمین پر امن قائم کرنے کے لیے آیا ہوں- میں تلوار لے کر آیا ہوں میں آدمی کو اس کے باپ کے خلاف اور بیٹی کو ماں کے خلاف اور بہو کو ساس کے خلاف کرنے کے لیے آیا ہوں- جو شخص ماں اور باپ سے مجھ سے زیادہ محبت کرتا ہے- وہ میری اتباع کے قابل نہیں ہے اور جو اپنے بیٹے یا بیٹی سے مجھ سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ بھی میری اتباع کے قابل نہیں ہے- ایک فرد کے اہل خانہ اس کے دشمن بن جائیں گے- اور جو شخص اپنی صلیب نہیں اٹھاتا اور میرے پیچھے نہیں رہے- میری اتباع کے قابل نہیں ہے جس کو زندگی ملی ہے- گم کردے گا اور جس نے میرے لیے اپنی زندگی لگادی وہ زندگی کو پالے گا- تھامس کی بائیبل باب 16 میں عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میں دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے آیا ہوں- وہ نہیں جانتے کہ میں زمین پر آگ، تلوار، جنگ اور لڑائی کے لیے آیا ہوں- ایک گھر میں پانچ افراد ہوں گے، تین لوگ دو کے خلاف ہوں گے، دو تین کے خلاف ہوں-‘‘ باپ بیٹے کے خلاف ہوگا، بیٹا باپ کے خلاف ہوگااور وہ الگ الگ کھڑے ہوں گے-‘‘
اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ علام جانتا ہی نہیں ہے کہ جب وہ کہتا ہے کہ ’’اسلام شروع سے حالت جنگ میں رہا ہے‘‘ وہ کیا کہہ رہا ہے- جہاں تک تشدد کا معاملہ ہے علام تاریخی حقائق سے صرف نظر کررہے ہیں کیونکہ اگر آپ کسی مذہب کا جائزہ اس کے پیروکاروں کے اقدامات کی روشنی میں لیں گے تو عیسائیت کو دنیا کے سب سے پرتشدد مذہب کا اعزاز حاصل ہو جائے گا-
عیسائیت اور تشدد کے درمیان تعلقات کو سمجھنے کے لیے ہمیں درج ذیل تاریخی حقائق کو دیکھنا چاہیے- مغربی ’’عیسائیوں‘‘ نے دس کروڑ سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا اس میں دیگر ’’عیسائی‘‘ بھی شامل تھے- جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم ’’عیسائیوں‘‘ کی جنگیں تھیں- ان میں دو کروڑ افراد مارے گئے- صلیبی جنگوں ، ھولوکاسٹ، اجتماعی ہلاکتوں، پھانسیوں اور لسانی بنیادوں پر ختم کرنے کی پیروان سچ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں پر جو تشدد کا الزام عائد کیا جاتا ہے وہ بہت چھوٹا الزام رہ جائے گا-
قرون وسطی میں کیتھولک لوگوں نے ہلاکت، تشدد اور تباہی و بربادی کو یورپ، ایشیائے کوچک اور عراق تک پھیلا دیا- اہل فرانس نے نہ صرف مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا بلکہ اپنے ہم مذہب آرتھوڈوکسوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا- ان کے گرجا گھروں کو تباہ و برباد کیا- ان کے پادریوں کو جان سے مارا اور ان کی عورتوں کو بے آبرو کیا-
شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا میں ’’سفید فارم‘‘ نے مسیح کے نام پر لاکھوں انسانوں کو حق زندگی سے محروم کردیا-
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان بھی تشدد میں متعلق رہے اور ایسے واقعات بھی ہیں کہ جن کی توجہیہ نہیں کی جاسکتی لیکن مسلمانوں پر الزامات عائد کرتے ہوئے یہ سمجھنا کہ عیسائیوں کے ہاتھ بالکل صاف ہیں، غلط ہے-
سیموئیل پی ہنٹگٹن کے انتہائی اہم دانشوروں میں کیا جاتا ہے- ان کا کہنا ہے کہ ’’مغرب نے دنیا پر اپنے خیالات اور نظریات یا مذہب کی بناء پر نہیں بلکہ منظم تشدد کی بناء پر حاصل کیا‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’اہل مغرب عموماً اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں لیکن غیر مغربی اسے نہیں بھولتے-‘‘
علام کے عیسائی بننے کی تقریب کے بعد ویٹی کن کے ایک اہل کار کارڈینل گیو وانی نے کہا کہ تبدیلی مذہب اور قبول عیسائیت ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور ہمیں امید ہے کہ مسلمان اس واقعے کو منفی رنگ دینے کی کوشش نہ کریں گے-
یہ ممکن ہے کہ گیوانی کی بات تسلیم کرلی جائے اور یہ مان لیا جائے کہ ویٹی کن اس واقعے کو اچھالنا نہیں چاہتا تھا لیکن جس انداز میں اپنا سابقہ مذہب چھوڑنے اور نیا مذہب اختیار کرنے والے اور تقریب کے دوران اسلام کو مورد الزام ٹھہرانے کا جو کردار ادا کیا گیا اس سے مسلمانوں کے دل میں ردعمل اور نفرت پیدا ہونا فطری بات ہے- اسلام کے ڈیڑھ ارب پیروکار ہیں- ان میں اہل یورپ بھی ہیں اور ہزاروں اطالوی بھی ہیں-
ہزاروں اہل یورپ و پیروان مسیح نے اسلام قبول کیا ہے- حالیہ برسوں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے- لیکن کسی مقام پر بھی مسلم شخصیات نے اس تبدیلی مذہب کو عیسائیت پر حملے کے لیے استعمال نہیں کیا دنیا بھر میں مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہے ہیں- وہ ہمسائے ہیں اور ہمسایوں کو ایک دوسرے کے احترام کا خیال کرنا چاہیے-
