مزاحمت کے محاذپر فلسطینی عورت مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے – وہ مزاحمتی عمل کا فہم اور ادراک رکھتی ہے – فلسطینی ماں اپنے بچے کو بہادری‘ مزاحمت اور جہاد کا دودھ پلاتی ہے- جب وہ چار یا پانچ سال کا ہوتاہے تو اسے معلوم ہوتاہے کہ مزاحمت اور جہاد کامطلب کیا ہے ‘ فلسطینی عورت معاشرے کو ٹوٹنے سے بچانے میں کامیاب رہی ہے- اس نے بڑی حکمت و دانائی اور سمجھ داری سے مشکل معاشی حالات کا مقابلہ کیا ہے- اسلام نے عورت کو گھر میں قید نہیں کیا- الشیخ احمد یاسین شہید نے خواتین میں طاقتور تحریک پیدا کی-
ان خیالات کا اظہار فلسطینی قانون ساز اسمبلی میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس ) کے پارلیمانی گروپ کی خاتون رکن جمیلہ شنطی نے مرکزاطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- انٹرویو کامتن زائرین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہے-
موجودہ حالات میں فلسطینی خاتون کے کردار کا آپ کس طرح جائزہ لیں گی؟
جواب: مزاحمتی محاذپر فلسطینی خاتون مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے- فلسطینی خاتون نے ہی موجودہ نسل کو پروان چڑھایا ہے، جس نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے کاندھوں پر دین اور وطن کا بوجھ اٹھایا ہے- موجودہ نسل صہیونی دشمن کو سبق پر سبق سکھا رہی ہے- حصار بندی کے حوالے سے آج کی تاریخ شاہد ہے کہ فلسطینی خاتون نے حصار بندی توڑنے کے لئے ثابت قدمی اور صبر کا مظاہرہ کیا – بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے اس کے کردار اورموقف کو بیان کیا ہے- اس نے اپنی ذہانت سے متبادل راستے اختیار کئے آپ نے کبھی سنا ہوگا یا پڑھا ہوگا کہ غزہ کی عورت نے مشکل اقتصادی حالات میں چیخ و پکار یا بے چینی کا اظہار کیا ہوبلکہ اس نے حالات پر قابو پایا کیونکہ وہ ایمان رکھتی ہے کہ مزاحمت کی خندق میں وہ مرد کے ساتھ ہے-
آپ کے خیال میں فلسطینی معاشرے میں خاتون جو کردار ادا کررہی ہے‘وہ کافی ہے یا مزید ضرورت ہے؟
جواب: میں بڑے واضح طور پر کہنا چاہتی ہے کہ بالخصوص حالیہ دنوں میں عورت مرد سے پیچھے نہیں رہی ہے- وہ متعدد مواقع پر مرد سے بھی سبقت لے گئی – بلند ہمت اور مضبوط ارادہ رکھتی ہے- میں دوبارہ کہوں گی کہ جس موقع پر بھی اس کی ضرورت پڑے گی وہ کبھی پیچھے نہیں رہے گی-
فلسطینی خاتون کو معاشرے میں کن مشکلات کا سامنا ہے ؟
جواب:فلسطینی خاتون کی حالت یہ ہے کہ اس کا شوہر یا تو گرفتار ہے یا پھر اسرائیلی افواج کو مطلوب ہے یا پھر اسے شہید کردیا گیاہے- سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کام کررہی ہے – وہ ہر رکاوٹ کو عبور کررہی ہے وہ مزاحمت کا فہم اور ادراک رکھتی ہے- میری مراد اسلحہ اٹھانا نہیں ہے بلکہ وہ سرحدی علاقوں میں اپنے گھروں میں موجود ہیں- سرحدی علاقوں می گھروں کو نہ چھوڑ نا بھی مزاحمتی عمل ہے بلکہ سخت ترین مزاحمت ہے –
بہت سی مسلمان مائیںآپ سے اولاد کی تربیت اور پرورش کے گر سیکھنا چاہتی ہیں‘ آپ اس بارے میں کیا کہیں گی ؟
جواب :فلسطینی عورت انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہے- ان مشکلات اور سخت تجربات کی وجہ سے اس کے اندر بڑا شعور اور احساس پیدا کیا ہے جس پر وہ اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہے- وہ اپنے بچے کو طاقت اور بہادری کا دودھ پلاتی ہے- وہ اپنے بچے سے کہتی ہے کہ تمہیں تمہارے باپ کی طرح بہادر دیکھنا چاہتی ہوں- وہ اسے مزاحمت ‘ جہاد‘شہادت اور قر ن کے کلمات سکھاتی ہے – فلسطینی بچے کی شخصیت اس طرح پروان چڑھتی ہے کہ جب وہ چار یا پانچ سال کا ہوتاہے تو اسے معلوم ہوجاتاہے کہ مزاحمت اور جہاد کا کیا مطلب ہے – آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ جب اسرائیل کسی گھر پر بمباری کرتاہے تو بمباری کی جگہ جانے والا پہلا فرد کوئی نہ کوئی بچہ ہی ہوتاہے – موجودہ فلسطینی نسل کی تربیت کی ذمہ داری تقریباہ نوے فیصد عورت کے کاندھوں پر ہے کیونکہ دمیوں کے پیچھے اسرائیلی فوج لگی ہوئی ہے – وہ مزاحمتی عمل میں مشغول ہیں یا پھر اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں-
وہ کون سے مفاہیم ہیں جو فلسطینی خاتون میں نمایاں ہوئے ہیں ؟
جواب :عقیدے اور تہذیب و تمدن پر پرورش ،فلسطینی عورت معاشرے کی حفاظتی سرحد پر کھڑی ایسے ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے محفوظ رکھ رہی ہے- عورت کے ٹوٹنے سے معاشرہ ٹوٹ جاتاہے- فلسطینی عورت معاشرے کو ٹوٹنے سے بچانے میں کامیاب رہی ہے- اسی بات کا اعتراف صہیونی دشمن نے بھی کیا ہے- فلسطینی عورت نے مشکل معاشی حالات کا مقابلہ بڑی حکمت، ذہانت اور سمجھ داری سے کیا-
مزاحمت اور جہاد کے حوالے سے کسی فلسطینی عورت کا موقف جیسے آپ دیکھ کر متاثرہوئی ہوں اور جواب بھی آپ کے سامنے گھوم رہا ہو؟
جواب :ہم شمالی غزہ کے بیت لاھیہ قصبے کے دورے پر تھے کہ ایک واقعہ نے میرا دل موہ لیا – ایک فلسطینی عورت کے گھر کو اسرائیلی افواج نے منہدم کردیا تو اس کا ردعمل کیاتھا- اس نے فلسطین اور حماس کا جھنڈا ہوا میں لہرایا اور تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑی ہو کر صحافیوں اور کیمرہ مینوں کو بلایا اور کہنے لگی ’’میری تصویر اتارواور سنو یہ میرا تباہ شدہ گھر ہے لیکن یہ کبھی نہ سوچنا کہ میں یہاں سے نکلوں گی جو کچھ ہوجائے میں اس گھر کو نہیں چھوڑوں گی ‘‘یہ ہے فلسطینی عورت کی استقامت اور ثابت قدمی-
آپ کے خیال میں کیا خاتون کو گھر تک محدود رکھنے کا دور ختم ہوگیا ہے- آپ اس بارے میں کیا کہیں گی؟
جواب :عورت کے حقوق اور ضروری اعمال میں جو گھر سے باہر کرنا ہوتے ہیں عورت کو گھر سے نکل کر تعلیم حاصل کرناہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’اپنی ضروریات پوری کرنے ے لئے گھر سے نکلو ‘‘نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ضرورت کا تعین نہیں کیا لیکن عورت کا شریعت اور رسم و رواج کے دائرے کے اندر رہنا ضروری ہے- مسلمان عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ ہر کام کے لئے گھر سے نکلے- میں واضح کردینا چاہتی ہوں کہ اسلام نے عورت کو گھر میں قید نہیں کیا، اسے آزادی دی ہے لیکن آزادی کی حدود کو پہنچاننا ضروری ہے- دین حنیف میں اسے کس قسم کی آزادی دی گئی ہے-
اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے بانی رہنما الشیخ احمد یاسین کے یوم شہادت کے حوالے سے آپ کیا کہیں گی؟
جواب : الشیخ احمد یاسین ابھی بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں- انہوں نے ہمارے دلوں میں جذبہ پیداکیا، میں کہوں گی کہ عورتوں کے اندر طاقت ور تحریک پیداکرنے میں اللہ کے فضل کے بعد انہی کا ہاتھ ہے-
فلسطینی عورت کے جہاد کی اور ثابت قدمی کی تعریف کے حوالے سے آپ کو الشیخ احمد یاسین کی کوئی بات یاد ہے؟
جواب: وہ ہمیشہ خواتین کا احترام کرتے ، اکثر بہنیں مجھ سے کہتیں کہ سکولوں میں بچوں کی تقریبات میں شرکت کے لئے شیخ کو بلائو ں تو میں انہیں کہتی کہ وہ مصروف ہیں وہ بچوں کے لئے کیسے فارغ ہوں گے- لیکن اس کے باوجود میں شیخ سے استدعا کردیتی کہ بچوں کی تقریب میں تشریف لائیں- میں ان کے حوصلہ افزاء جواب سے حیران ہوجاتی- وہ کہتے کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، انہوں نے وطن کو آزاد کرانا ہے – میرے خیال میں کبھی ایسا کوئی موقع نہیں آیا کہ میں نے شیخ سے بچوں کی کسی تقریب میں شرکت کی درخواست کی ہواور انہوں نے اسے مسترد کیا ہو-
مجاہدفلسطینی خاتون کو کیا امیدیں ہیں؟
جواب :کسی بھی فلسطینی کی امنگ اس کے وطن کی آزادی ہے- ہم اپنے ملک کو مکمل آزاد دیکھناچاہتی ہیں، ہم اپنے ملک کی مٹی کے ایک ذرے کا سودا نہیں کریں گے- مزاحمتی صفوں میں ثابت قدم کھڑے رہیں گے –
فلسطینی خاتون کو آپ کا کیا پیغام ہے؟
جواب :صحیح راستے میں مزید صبر واستقلال اور اپنے بچوں کو مزید دین ، عزت ووقار اور خود داری کا دودھ پلاؤ اور ان کی صحیح تربیت کریں- ہمارا معرکہ صہیونی دشمن سے ہے- لہذا اپنے اپنے بیٹے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں اور اسے ثابت قدمی، سختی جھیلنے طاقت ومزاحمت کا درس دیں-
