پنج شنبه 01/می/2025

الشیخ احمد یاسین کی شہادت

منگل 25-مارچ-2008

– اسرائیلی جرم کی داستان ابھی فلسطینیوں کے ذہنوں میں نقش ہے- 22مارچ 2002ء کی صبح کو الشیخ احمد یاسین نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اپنی وہیل چیئرپر مسجد سے نکل رہے تھے کہ اسرائیلی طیاروں نے میزائل حملہ کیا – آپ پر تین میزائل فائر کئے گئے-
جس کے نتیجے میں آپ اپنے 8نمازی ساتھیوں سمیت خالق حقیقی سے جا ملے- فلسطینیوں کو ابھی بھی یاد ہے کہ صبح کے پانچ بج کر 20منٹ ہوئے تھے کہ اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے 66سالہ الشیخ احمد یاسین کو نشانہ بنانے کی لئے تین میزائل فائر کئے- انسانی حقوق کی تنظیموں نے تصدیق کی ہے کہ ایک میزائل براہ راست الشیخ احمد یاسین اور آپ کے محافظوں پر گرا جس سے آپ کی فوری شہادت واقع ہوئی اور جسم کے اعضاء فضاء میں بکھر گئےجبکہ دوسرے دومیزائلوں سے چار نمازی شہید ہوئے اور 17زخمی ہوئے – وحشیانہ کارروائی کے بعد بڑے فخر سے اسرائیلی حکومت نے اپنے جرم کا اعلان کیا – اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے خبر جاری کی کہ وزیراعظم ارئیل شیرون کے حکم سے الشیخ احمد یاسین پر میزائل حملہ کیاگیا اور وزیراعظم نے مجرمانہ کارروائی کی لمحہ بہ لمحہ خبرلی-
 ایک نمازی کا کہناہے کہ جب اس نے زور دار دھماکے  واز سنی تو اسے فوراً شیخ کی فکر لاحق ہوئی – شیخ کو دیکھا تو وہ زمین پر ساکت پڑے تھے اور ان کی وہیل چیئربھی چورچور ہوگئی تھی – اس کے بعد دو مزید میزائل گرے – ایک اور عینی شہد کا کہناتھاکہ شیخ کی کرسی کے ٹکڑے خون سے تر تھے-
 الشیخ احمد یاسین کی شہادت کی خبر کے بعد ہزاروں لوگ مغربی کنارے اور غزہ کی سڑکوں پر نکلے اور اسرائیل کی مجرمانہ کارروائی پر غم و غصہ کااظہار کرتے ہوئے شیخ کے خون کا بدلہ لینے کااعلان کیا- اسرائیل نے شیخ کو شہید کرنے کی متعدد بار کوشش کی – 6دسمبر2003ء کو ان کے گھر پر بمباری کی-  موجودہ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ بھی ان کے گھر پر موجود تھے – لیکن اللہ تعالی نے ان کو محفوظ رکھا-
الشیخ احمد یاسین کی شہادت نے فلسطینیوں کے دلوں میں ان کے لئے مزید عزت واحترام پیدا کیا – شہادت کے وقت ان کی صحت ٹھیک نہیں تھی اور وہ قدرتی موت کے قریب تھے – شیخ کے گھر والوں کے مطابق شہادت سے 36گھنٹے قبل انہیں پھیپھڑے کی مرض کا شدید حملہ ہوا- 
مرض کے حملے کے بعد انہیں سانس لینامشکل ہوگیا اور وہ گفتگو بھی نہیں کرسکتے تھے -انہیں ان کی مخصوص جگہ پر لے جایاگیا‘ سانس کے ساتھ  واز بلند ہونے کی وجہ سے ہسپتال دارالشفا ء منتقل کرنا پڑا‘ جہاں پر ان کا علاج کیاگیا -ساحل پر اسرائیلی فوجیوں کی غیر معمولی نقل و حرکت کے باعث محافظین نے شیخ کو ہسپتال سے گھر منتقل کردیا-  آپ کی حالت اس وقت بہت نازک تھی اور قریب المرگ تھے کیونکہ سانس کی تکلیف کے باعث رات بھر نہیں سو سکے تھے- شہادت سے 24گھنٹے قبل اتوار کی صبح کے بعد وہ گھر میں ہی رہے اور ان کی حالت بہت خراب تھی وہ کچھ کھابھی نہیں سکتے تھے –
 دوسری جانب اتوار کے روز پورا دن صبرا محلے کی فضا میں بغیر پائلٹ کے اسرائیلی جاسوسی طیاروں کی پروازیں جاری رہیں- صبرا محلہ نتساریم یہوددی آبادی کے قریب واقع ہے اور نتساریم یہودی آبادی میں اسرائیلی افواج کی غیر معمولی نقل و حرکت جاری تھی- شیخ کے محافظین نے حملے کے خطرے کے باعث شیخ کو گھر پر نہ رکھنے کا فیصلہ کیا-چنانچہ پروگرام بنایا گیا کہ اسلامی کیمپس کی مسجد میں عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد آپ کو کسی دوسری جگہ پر منتقل کردیا جائے – 
اسلامی کیمپس کی مسجد آپ کے گھر کے قریب چند سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے – عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد شیخ نے مسجد میں ہی ٹھہرنے پر اصرار کیا اور کہاکہ انہوں نے  ج رات مسجد میں اعتکاف کرنے کی نیت کی ہے – لہذا وہ مسجد سے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہی نکلیں گے- آپ کے فیصلے کے سامنے بیٹوں اور محافظین کو مجبورہوناپڑا – الشیخ احمد یاسین سانس میں تکلیف کے باوجود تسبیح و اذکار کرتے رہے – آپ کے ساتھ رات کو ٹھہرنے والے نمازیوں نے محسوس کیا کہ اذان فجر سے قبل آپ کی صحت غیر معمولی حدتک ٹھیک ہوگئی ہے – انہوں نے بات چیت شروع کردی –
 مسجد میں نماز ادا کرنے والے 29 سالہ شغنوبی کا کہناہے کہ شیخ نے مجھ سے بات کی اور مجھے بتایا کہ میں رات 2 بجے سویا ہوں اور 3 بجے وضوکرنے اور نماز فجر ادا کرنے کے لئے اٹھ گیا- موذن نے شیخ کو جب بعض نمازیوں اور نمازفجر کے لئے آنے والے نو سالہ بچے سے محو گفتگو دیکھا تو کچھ دیر کے لئے اقامت کو موخر کیا- نماز فجر کی ادائیگی کے بعد محافظین آپ کو گھر کی طرف لے کر چل پڑے- آپ کے دونوں بیٹے اور پڑوسی آپ کے ساتھ تھے- بسام شغنوبی نے مزید بتایا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی ’’اونروا‘‘میں کام کرنے والا ایک شخص وہاں سے گزررہاتھا اس نے متنبہ کیا کہ جہاز کی آواز آ رہی ہے – شیخ پر بمباری ہوسکتی ہے-
 شیخ نے جواب دیا ’’سب کچھ اللہ پر ہے جو اللہ پر بھروسہ کرتاہے اللہ اس کے لئے کافی ہے ‘‘ میزائل فائر ہونے سے کچھ لمحات پہلے آپ کاایک پڑوسی آپ سے بات کرنے کے لئے آپ کی طرف مڑا لیکن اس کو بات کرنے کا موقع نہیں مل سکا – میزائل نے شیخ کے جسم کو چیر دیا اور صبر واستقلال کا مجسمہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا – ان کی شہادت صرف فلسطینیوں کے لئے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے باعث فخر ہے – انہوں نے اسی طرح کی موت پائی جس کے وہ متمنی تھے-

مختصر لنک:

کاپی