چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطین اتھارٹی کا خاتمہ —– مسائل کا حل

اتوار 23-مارچ-2008

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ ذہین فلسطینی ’’سفارتکار‘‘رام اللہ اور مغربی بیت المقدس کے درمیان ’’امن مذاکرات ‘‘کے لئے کیوں بھاگ دوڑ کررہے ہیں‘ کیونکہ اس بات سے غزہ کی پٹی کی گلیوں میں کھیلنے والے چھوٹے چھوٹے بچے بھی آگاہ ہیں ‘ کچھ فائدہ نہ ہوگا-
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کی بڑی تعداد اس ناقابل فہم ’’امن مذاکرات ‘‘ سے تنگ آ چکی ہے کیونکہ ان مذاکرات کے پردے میں اسرائیل ہمارے بچوں کو قتل کررہاہے ‘ ہماری زمین پر قبضہ کررہاہے ‘ ہمارے گھر مسمار کررہاہے اور ہمارا قافیہ تنگ کررہاہے –
12مارچ کو اسرائیل کے ایک ہلات خیز دستے نے بیت لحم میں چار فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ‘ یہ وہ علاقہ ہے کہ جہاں فلسطینی اتھارٹی کا دعوی ہے کہ اس کی ’’اتھارٹی ‘‘ہے- چار فلسطینیوں نے یہ گمان کیا ہوگا کہ غزہ کی پٹی میں جو جنگ بندی جاری ہے شاید اس کااطلاق مغربی کنارے پر بھی ہوگا اور فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ یہ مفاہمت کررکھی ہے کہ مغربی کنارے کے لوگوں کی جان بخشی کی جائے گی- چار غریب فلسطینی شہری اس سے آگاہ نہیں تھے کہ فلسطینی اتھارٹی کے اعلانات اس قدر بودے اور ناقابل فہم ہیں جس طرح ان کی اتھارٹی اور خود مختاری ‘ بودی اور کمزور اور اسرائیل کے زیر سایہ ہے –
مسیح ناصری کے  بائی قصبے میں ‘غزہ کی پٹی میں 120افراد کے خون بہائے جانے کے چند روز بعد ‘اسرائیل نے ایک شدید کار وائی کی‘ ان کارروائیوں کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا اور دس گھنٹے تک اس پر قائم رہے‘ اس کے فوراً بعد کنڈولیزا رائس نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے کہاکہ وہ ’’طریقے ‘‘ سے رہیں-
اسی طرح محمود عباس کے قریبی ساتھیوں اور مشیروں نے اسرائیلی جرائم اور کاروائیوں کے خلاف چند ہلکے پھلکے بیان دیے اور اس کے بعد وہ اپنی سابقہ پالیسی پر دوبارہ آگئے-
مجھے دکھ ہے کہ میرے پاس محمود عباس کے لئے ہمیشہ افسوس ناک بیانات ہی ہوتے ہیں- محمود عباس کاپارٹنر ایہوداولمرٹ ہے اور وہ اتنے ہی جھوٹ بولتاہے کہ جتنے وہ سانس لیتاہے ‘ وہ امن مذاکرات کو اور محمود عباس کو کوئی مقام دینے کے لئے تیار نہیں ہے‘ نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کی اس کے نزدیک کوئی وقت ہے – اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کا قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں‘ اور آپ زمین پر قبضے کا سلسلہ جاری رکھیں اور ہم باتیں کرتے رہیں‘ اسرائیلی لیڈر اور اسرائیلی عوام عرصہ دراز قبل اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ اسرائیل کو للکارنے میں فلسطینی اتھارٹی کے لیڈر سنجیدہ نہیں ہیں اگرچہ وہ اس کااعلان سرعام کرتے ہیں‘ ممکن ہے کہ اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لئے وہ سخت لب و لہجہ اختیار کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سخت الفاظ استعمال کریں اور مطالبہ کریں کہ اسرائیل نئی تعمیرات بند کرے لیکن عملی طور پر ان کے اقدامات اس کے برعکس ہوں گے‘ اسرائیل اچھی طرح جانتاہے کہ یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ خالی خولی بیانات ہیں‘ عملی طور پر وہ کچھ نہ کریں گے‘ اسی ہفتے اسرائیلی صحافی آمرہ حاس نے اپنے مضمون میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے معاملات کے حوالے سے تحریر کیا ہے –
فلسطینی اٹھارٹی کی جانب اسرائیلی کی نئی بستیاں بنانے پر تنقید کی احمقانہ اور بے وزن ہیں‘ ان بیانات سے اسرائیل اور فلسطین کو یہ پیغام دیاجاتاہے کہ جتنے بھی نئے رہائشی گھر تعمیر ہوجائیں گے‘ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے- امن مذاکرات کے لئے جوظاہرپن ’’شو‘‘ہوگا‘ فلسطینی اتھارٹی کا کٹھ پتلی کردار اس کو ضرورسنبھالے گا چند روز قبل ‘فلسطینی اتھارٹی کے ایک صحافی نے نجی ملاقات کے دوران محمود عباس سے دریافت کیا کہ جب مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی تسلط ختم نہ ہو اور امریکی انتظامیہ بھی اس پر تیار نہ ہو ‘ تو آپ کے ذہن میں متبادل لائحہ عمل کیا ہوگا‘ صحافیوں کا کہنا ہے کہ محمود عباس‘جن کے پاس کوئی جواب نہ تھا‘ نے ان سوالات کو تکلیف دہ ‘پریشان کن اور لایعنی قرار دیا ‘ محمود عباس اوراس کی فلسطینی اتھارٹی کے پاس کوئی جواب نہیں‘ لیکن فلسطینیوں کے پاس اس کا جواب موجود ہے اور وہ جواب یہ ہے کہ اس ناکارہ فلسطینی اتھارٹی کو ختم کردیں‘ دور یاستی فارمولہ اٹھا کر پھینک دیں‘جارج بش اور کنڈو لیزا رائس کے اشاروں پر اٹھک بیٹھک بند کردیں‘اسرائیلی تسلط کے ماتحت پراپرٹی ڈیلر کا کردار بند کردیں ‘فلسطینیوں کے قومی وقار کو دوبارہ استوار کریں اور ان تمام علاقوں میں شدید جدوجہد شروع کردیں کہ جہاں کسی بھی مذہب‘ نسل سے تعلق رکھنے والے فلسطینی رہتے ہوں‘ جھوٹے اور پرفریب نعروں کے جھانسے میں آنے سے اس ریاست کی جدوجہدزیادہ ضروری ہے-

مختصر لنک:

کاپی